شہرہ آفاق شاعر ‘احمد فراز’ کا یومِ پیدائش


اسلام آباد: شہرہ آفاق ترقی پسند شاعر احمد فراز کا آج اگر زندہ ہوتے تو زندگی کی 90 بہاریں دیکھ چکے ہوتے۔ 

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا۔ وہ بارہ جنوری 1931 کوکوہاٹ میں پیدا ہوئے۔

اردو، فارسی اورانگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرر بھی منسلک رہے۔

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

احمد فراز نے نہ صرف نوجوانوں کے لیے رومانوی شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا بلکہ انہوں نے تمناؤں اور خواہشات کے جہاں آباد کرنے کا رومان بھی اجاگر کیا۔

وہ عظمت انسان کے قائل تھے اسی لیے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو مسائل اور چیلینجز کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔

احمد فراز کے 14 مجموعہ کلام تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام سے شائع ہوئے۔

اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں

کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے

احمد فراز کی شعوری، فکری اور مسحورکن غزلوں و نظموں کے علاوہ ان کی فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

برصغیر کے کئی گلوکار فراز کی غزلیں گا کر راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ کئی نامور گلوکاروں نے ان کے کلام کو گا بام عروج بخشا۔

ملکہ ترنم نور جہاں، سلمٰی آغا، ترنم ناز اوردیگر نے ان کی غزلوں اور گیتوں کو گا کر لازوال کردیا۔ جگجیت سنگھ اور لتا منگیشکر کو بھی احمد فراز کی غزلیں گانے کا اعزاز حاصل ہے۔

کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فرازؔ کب تک

جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

ترقی پسند نظریات کے حامل احمد فراز کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور ہلال پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔

احمد فراز 25 اگست 2008 کو وفات پاگئے اور ایچ ایٹ اسلام آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں مگر فراز کی مزاحمتی آہنگ سے لبریز شاعری ہمیشہ کے لیے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بن گئی۔

احمد فراز کے بیٹے شبلی فراز موجودہ حکومت میں بطوروزیر اطلاعات خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں