سینیٹ انتخابات کے متعلق ریفرنس:عدالتی تشریح کےسب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

6 ججز کے خط

اسلام آباد: جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون بناتی اور عدلیہ اسکی تشریح کرتی ہے، عدالت کی تشریح کے تو سب پابند ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل  نے دلائل میں  کہا، متعدد مرتبہ سپریم کورٹ  سیاسی معاملات کی تشریح کر چکی ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس طرح آرٹیکل دو سو چھبیس کی تشریح کرتی ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا سپریم کورٹ کے بعد کوئی اپیلٹ فورم موجود نہیں ہے، عدالت کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس تین مختلف طرح کے اختیارات ہیں۔ سپریم کورٹ صدر کے ریفرنس پر مشورہ اور گائیڈ لائن بھی دے سکتی ہے۔ اوپن بیلٹ کے لیے آرٹیکل 226 میں ترمیم ضروری ہے۔

سپریم کورٹ اپیلٹ فورم کے ساتھ آئینی عدالت بھی ہے، امریکی سپریم کورٹ کے پاس ریفرنس پر رائے دینے کا اختیار نہیں ہے۔ حسبہ بل کیس میں عدالت کی رائے حتمی تھی۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت نے کبھی سیاسی معاملات میں بات نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا تھا۔ ہٹلر بھی منتخب نمائندہ تھا۔

کل کو کوئی آکر خود کو خلیفہ کہے تو عدالت اجازت نہیں دے گی، عدالت نے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیا تھا۔

نواز شریف کیس میں عدالت نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا۔ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس طرح آرٹیکل 226 کی تشریح کرتی ہے۔ صدر۔ وزیراعظم، اسپیکر کے الیکشن کسی ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکتے۔ آرٹیکل 225 کے تحت عام انتخابات الیکشن ٹربیونل میں چیلنج ہو سکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ انٹرا پارٹی یا سیاسی پارٹیوں کے معاملات ہوں تو عدالت ان میں نہیں پڑتی۔ ازخودنوٹس کے دائر اختیار کے تحت عدالت سیاسی معاملات کا جائزہ لیتی رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ اکثر سیاسی معاملات واپس پارلیمنٹ کو بھیجتی رہی ہے، آئین نے سپریم کورٹ کو اختیار دیا ہے، عدالت نے سیاسی معاملات واپس بھیجے۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے استفسار کیا کہ اگر عدالت تشریح کرتی ہے تو پھر کیا عدالتی تشریح کو فوقیت حاصل ہوگی؟ سپریم کورٹ نے سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں