لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن تاریخ کے آئینے میں 



لاہور کی تاریخی اہمیت پر یوں تو مغل اور سکھوں نے بھی حکمرانی کی لیکن انگریز راج نے لاہور کو جدت سے ہمکنار کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے فوراً بعد شہر میں ٹرین اسٹیشن اور دفاعی پوسٹ کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن کی بنیاد رکھی۔ 

پنجاب میں سکھ اور مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریز کو لاہور سے امرتسر اور ملتان سفر اور اشیاء کی ترسیل کے لیے سفری سہولت کی ضرورت پیش آئی۔ بغاوت جیسے مزید واقعات کو روکنے کیلئے لاہور ریلوے اسٹیشن کو قلعہ نما محفوظ عمارت کی شکل دی گئی۔ موٹی دیواریں ، اونچے برج ، اور براہ راست بندوق اور توپ کے فائر کرنے کے سوراخ بھی بنائے گئے۔

1859 میں سر جان لارنس نے ریلوے اسٹیشن کی بنیاد رکھی اور مغل سلطنت کے سابق عہدیدار میاں محمد سلطان کو تعمیرات کا ٹھیکہ دیا گیا۔ 1860 میں پہلی ٹرین عام مسافروں کو لے کر لاہور سے امرتسر روانہ ہوئی۔

چئیرمین لاہور شناسی فاؤنڈیشن فیضان نقوی کا کہنا ہے کہ جنگ آزادی کے بعد ملکی حالات پر قابو پانے کیلئے لاہور قلعے کے علاوہ ایک ایسی جگہ درکار تھی جہاں بوقت ضرورت فوج کو محفوظ رکھا جا سکے۔

1875 میں کنگ ایڈورڈ نے لاہور کا دورہ کیا تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، اس واقعے کے بعد لاہور اسٹیشن نے شہر کے داخلی راستے کا مقام حاصل کر لیا۔

1878 کی انگریز افغان جنگ میں لاہور ریلوے اسٹیشن سے روزانہ 75 ٹرینیں سپاہیوں اور کمک کو لے کر محاذ پر جاتیں۔

محقق و تاریخ دان مدثر بشیر نے ہم نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج میں لالہ لجپت رائے زخمی ہو کر ہلاک ہوئے۔  یہ واقعہ بھگت سنگھ کی تحریک کا نقطہ آغاز بنی۔

لاہور ریلوے اسٹیشن برصغیر کا پہلا دو رویہ اسٹیشن ہے۔ شروع میں دو ٹریک اور چار پلیٹ فارمز بنائے گئے، آج ریلوے اسٹیشن پر 11 پلیٹ فارمز ہیں جو تمام اسٹیل کے پلوں سے منسلک ہیں۔

اندرون ریلوے اسٹیشن کے دونوں اطراف طویل قامت محرابیں جدید اور قدیم آرٹ کا امتزاج ہیں، سفید محرابیں انگریزی طرز تعمیر ہیں جبکہ سرخ محرابیں مغلیہ طرز تعمیر کی عکاس ہیں۔

حکومت کی جانب سے ریلوے اسٹیشن کو پنجاب اسپیشل پری میسز پریزرویشن ایکٹ کے تحت تمام تر تبدیلیوں اور نقصانات سے محفوظ کیا گیا ہے۔

تاریخی اہمیت اپنی جگہ مگر لاہور ریلوے اسٹیشن نے قیام پاکستان اور اس کے بعد کی کئی سیاسی تحریکوں کے لئے بھی یہ پلیٹ فارمز فراہم کئے اور یوں یہ اسٹیشن ہماری جمہوری اور سیاسی تاریخ میں بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔


متعلقہ خبریں