کورونا، خون کے عطیات میں کمی: تھیلیسمیا کا شکار بچے موت و زندگی کی کشمکش میں۔۔۔!

کورونا، خون کے عطیات میں کمی: تھیلیسمیا کا شکار بچے موت و زندگی کی کشمکش میں۔۔۔!

پشاور: عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کا نظام زندگی الٹ پلٹ کیا ہے اور دنیا کے ممالک اور اقوام کو بدترین معاشی صورتحال سے دوچار کیا تو وہیں ان افراد کی زندگیوں کو بڑی حد تک داؤ پہ بھی لگا دیا جو کسی نہ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ 

۔۔۔ لیکن اگر مریض معصوم بچے ہوں اور وہ بھی تھیلیسیمیا جیسے مرض کا شکار ہوں تو والدین کے کرب کا اندازہ صرف وہی افراد کرسکتے ہیں جو اصحاب دل ہوں اور جن کے سینے میں انسانیت کا درد موجزن رہتا ہو۔

ذرا اندازہ کریں! ان والدین کی بے بسی، مجبوری اور لاچاری کا کہ جن کے جگر گوشے اگلی سانس کے لیے بھی خون کا عطیہ ملنے کے منتظر ہوں مگر والدین اپنی پوری تگ و دو اور بھاگ دوڑ کے باوجود ڈونرز کو ڈھونڈنے میں ناکام رہ رہے ہیں۔

تصور میں ذرا ان والدین کو لائیں کہ جن کے کمسن پھول اور خوش رنگ کلیاں بطور عطیہ ملنے والے خون کے بیگ کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ تھیلیسمیا کے مریضوں کو صرف 15 دن کے اندر ہی خون کی ایک بوتل لازمی درکار ہوتی ہے تاکہ سانس کی ڈور ٹوٹ نہ جائے۔

پشاور میں اس وقت سرکاری اسپتالوں میں تھیلسمیا کے سینکڑوں بچے رجسٹرڈ ہیں، تاہم ایسے مریضوں کے لیے بڑے پیمانے پر خدمات نجی اور فلاحی شعبے دے رہے ہیں جہاں تھیلسمیا سے متاثرہ بچوں کو بلا معاوضہ خون کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے۔

پشاور میں حمزہ،  فاطمید اور فرنٹیر فاونڈیشن بھی دو دہائیوں سے اسی کار خیر میں حصہ لے رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 18 تا 20 ہزار تھیلسیمیا میجر کے بچے موجود ہیں جن میں سے 3800 فرینٹیر فاونڈیشن اور 1270 حمزہ فاونڈیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔

مزید پڑھیں: بولان میڈیکل کمپلکیس کوئٹہ میں پاکستان تھیلیسیمیا سنٹر کا افتتاح

فرینیٹر فاونڈیشن کے میاں عتیق رحمان کے مطابق دوران لاک ڈاون انہیں مالی ہی نہیں بلکہ خون کے عطیات کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ آمدورفت پر لگی پابندیوں کے سبب خون کا عطیہ دینے والوں کی بڑی تعداد ان تک نہ پہنچ پائی ، مسلہ سنگین صورت اختیار کرتا اور عطیات نہ ملنے کے باعث بچوں کی جان کو خطرہ لاحق رہتا۔

حمزہ فاونڈیشن کے اعجاز احمد کہتے ہیں کہ خون کے عطیے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپیلیں کی گئیں اور جن جگہوں سے مثبت جواب آیا وہاں احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے خون کے حصول کے لیے کیمپ لگائے گئے۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی صورتحال میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ ہر بچے کا خاندان کرب سے گزرا اور گزر رہا ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والے سعادت خان کے دو بچے جنکی عمریں 8 تا 10 سال ہیں عارضہ خون میں مبتلا ہیں۔

پشاور کے ایک سرکاری اسپتال میں رجسٹر ان بچوں کو پہلے خون کے حصول میں کبھی دشواری پیش نہ آئی، مگر دوران کورونا وبا انتظامیہ کی تمام تر توجہ کوویڈ متاثرین پر مرکوز رہی۔ ایسے میں مطلوبہ خون کی عدم دستیابی سمیت کورونا وائرس کے ڈر نے ان کی تشویش دگنی کردی۔ مسلسل تیسری بار بھی تکلیف سے بلبلاتے جگر گوشوں کو خون نہ لگنے پر بے بسی کی تصویر بنے والد کو محسوس ہوا کہ ان معصوموں کی سانسیں اب تھمیں کہ تب تھمیں ۔

کورونا کے باعث مشکلات کا سامنا اپنی جگہ مگر دوسروں کے لیے خیر کا جذبہ رکھنے والے بھی کم نہ تھے۔ انہی میں سے ایک شہزاد حنیف بھی ہیں جو پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اب تک 80 سے زائد بار تھیلسیمیا کے بچوں کے لیے اپنا خون ہی نہیں بلکہ پلیٹ لیٹس بھی عطیہ کرچکے ہیں۔

پروفیسر شہزاد حنیف کے مطابق کورونا وائرس کے دوران انہیں بھی لاک ڈاون کی وجہ سے خون دینے میں دشواری پیش ائی۔ پشاور میں خون کے عطیات وبا کے دنوں میں کم ہونے کی ایک بڑی وجہ بتاتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ یہاں زیادہ بلڈ ڈونیشنز، ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کی جانب سے ہی دئیے جاتے ہیں۔ وبا کے پھیلاؤ کے ڈر سے تعلیمی ادارے بند رہے اور طلبہ کی شہر میں عدم موجودگی بھی خون کے عطیات میں کمی کا باعث بنی۔

شہزاد حنیف

شہزاد حنیف کہتے ہیں کہ وہ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ تھا جب انکی ملاقات عارضہ قلب میں مبتلا ایک بچی کی بہن سے ہوئی جس نے بتایا کہ دوران لاک ڈاؤن بروقت خون منتقل نہ ہونے پر بچی انتقال کر گئی۔

یہ کہانی ایک بچی کی نہیں ،ایسے نہ جانے کتنے معصوم پھول وبائی دور میں خون کی قلت کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہوں گے، جن کا ڈیٹا کوویڈ 19 کے رخصت ہونے پر جب سامنے آئیگا تو دکھ اور کرب کی نجانے کتنی ہی داستانیں درد دل رکھنے والوں کو سننے کو ملیں گی۔


متعلقہ خبریں