کرکٹ میں نو بال کا قانون کیوں بنا؟


فروری 1981 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک سنسنی خیز میچ کھیلا گیا اور اس میں پیش آنے والا  انوکھا واقعہ آج بھی  کرکٹ کی تاریخ کا حصہ ہے۔

پانچ میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر تھی اور تیسرے مقابلے میں نیوزی لینڈ کو آخری گیند پر 6 اسکور درکار تھے۔

آسٹریلیا کے کپتان گریک چیپل پر میچ کا اتنا دباؤ تھا کہ وہ بالکل بانڈری لائن پر فیلڈنگ کر رہے تھے جبکہ عام طور کپتان ایسا نہیں کرتا۔

کپتان کے بھائی ٹریورچیپل میچ کا آخری اوور کرا رہے تھے اور نیوزی لینڈ کے بلے باز برین میکچین ان کا سامنا کرنے والے تھے۔

گریک چیپل نے اپنے بھائی کو ایسا مشورہ دیا جس سے کرکٹ کے کھیل میں ایک نیا قانون متعارف  کرانے کی ضرورت پیدا ہوئی اور اس عمل کو کرکٹ کے اصولوں کے متضاد قرار دیا گیا۔

آسٹریلیا کے کپتان نے اپنے بھائی کو ’انڈر آرم‘ گیند پھینکنے کی ہدایت کی تاکہ میچ کی آخری بال پر بلے باز چھکا نہ مار سکے۔

ٹریورچیپل نے آخری اوور کی آخری بال کو ایسے پھینکا کہ وہ اچھلے بغیر زمین کے ساتھ رگڑ کھاتی ہوئی بلے باز تک گئی۔

بلے باز انڈر آرم گیند پر چھکا مارنے کی پریکٹس کرتے رہتے تھے لیکن ایسے گیند کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار کرائی گئی تھی۔

ان دنوں بانڈری پر رسیوں کی بجائے لوہے کی جالی لگائی جاتی تھے اور پیچ سے بانڈری کا فاصلہ کم سے کم 100 میٹر تھا۔

ایسی گیند زیادہ سے زیادہ40 میٹر تک پھینکا جا سکتا تھا اور آخری گیند پر چھکا مارنا ممکن نہیں تھا۔

دوسری جانب وکٹ پر موجود بلے باز نے گیند کو کھیلنے انکار کرتے ہوئے اپنا بیٹ ہٹا لیا۔ برین میکچین نے اپنا بیٹ زمین پر دے مارا کیوں کہ یہ بات اسے انتہائی ناگوار اور کرکٹ کے قوانین کے منافی محسوس ہوئی۔

ٹی وی ریویو میں اس گیند کو باربار دیکھا گیا اور درست بھی قرار دیا گیا لیکن امپائر نے آؤٹ دینے سے انکار کر دیا۔

گیند کرانے کا یہ طریقہ اس سے قبل نہیں اپنایا گیا تھا اور اس کو ایک متنازعہ گیند تصور کیا گیا۔ میڈیا میں اور سیاست دانوں کی جانب سے بھی بالر کے اس عمل پر سخت تنقید کی گئی۔

بعد ازاں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے’انڈرآرم‘ گیند کے متعلق قانون میں تبدیلی کی اور اسے کھیل کے اصولوں کے منافی قرار دیا تاکہ مستقبل میں اس قسم کی صورتحال پیدا نہ ہو سکے۔


متعلقہ خبریں