علامہ اقبال کا مجسمہ سوشل میڈیا پر زیر بحث کیوں؟


سفید چونے اور سیمنٹ سے بنے شاعرمشرق علامہ محمد اقبال کے مجسمے کی تصویر سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہے اور ملک کے نامور صحافی اس پر تبصرے بھی کر رہے ہیں۔

یہ مجسمہ لاہور کے  گلشن اقبال پارک میں گزشتہ سال جشن آزادی کے موقع پر نصب کیا گیا تھا۔

ملک کے نامور صحافیوں نے اس مجسمے کی تصویر اپنے تبصرے کے ساتھ شیئر کی ہے۔ صحافی حامد میر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ جناب ولید اقبال صاحب کیا آپ جانتے ہیں یہ کس کا مجسمہ ہے؟ کیا یہ کہیں سے بھی شاعر مشرق کا مجسمہ نظر آتا ہے؟

آپکی حکومت کے خیال میں یہ شاعر مشرق ہیں اور کسی سفارشی سےمجسمہ بنواکر عوام الناس کے لئے اسے گلشن اقبال لاہور میں سجا دیا گیا مجھے تو یہ مجسمہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔

خاتون صحافی عاصہ شیرازی نے بھی تصویر شیئر کی اور اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ نئے پاکستان میں علامہ اقبال ہی تبدیل کر دئیے گئے۔

ناصر بیگ چغتائی نے لکھا کہ لاہور کے اقبال پارک میں اگر یہ مجسمہ علامہ اقبال کا ہے تو سنگ تراش انتظامیہ اور منظوری دینے والے کو قلعے کے تہہ خانے میں بھوکے چوہوں کے ساتھ رکھا جائے پھر بھی بچ جائیں تو اسی مجسمے کے سر سے نیچے پھینکا جائے بار بار۔

رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو گھوڑے سمیت بنا لیتے ہیں علامہ کا بنا سکے نہ ان کے قلم کا۔

علامہ اقبال کا مجسمہ کسی ماہر مجسمہ ساز نے نہیں بلکہ گلسن اقبال پارک میں کام کرنے والے مالیوں نے بنایا ہے۔ ہم نیوز نے چھ ماہ قبل اس مجسمے پر تفصیلی رپورٹ بھی نشر کی تھی۔

مالیوں نے تین ماہ کی انتھک محنت سے اپنی مدد آپ کے تحت شاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تیار کیا تھا۔

یہ مجسمہ گزشتہ سال جشن آزادی کے موقع پر نصب کیا گیا تھا اور اس کو بنانے میں مالیوں نے کسی سے مالی امداد نہیں لی۔

پارک کے مالیوں نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹور روم پڑے ہوئے کباڑ کو جمع کرکے علامہ اقبال کا مجسمہ بنایا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں