اسٹیل ملز: ایک ہی لیٹر پر سب افسران کو فارغ کیا جائے، چیف جسٹس

چیف جسٹس اسٹیل مل کی صورتحال پر سخت برہم

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اسٹیل ملز کی حالت زار سخت برہمی کا اظہار کر دیا۔

سپریم  کورٹ پاکستان میں اسٹیل ملز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ وفاقی وزیر اسد عمر اور وفاقی وزیر نجکاری میاں محمد سومرو عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اسٹیل ملز کی حالت زار پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز کے افسران سے پیسے نکلوائے جائیں اور ایک ہی لیٹر پر سب افسران کو فارغ کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسٹیل مل پر روزانہ 2 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں اور مزدور سے لے کر افسران تک کو 15 سال سے بغیر کام کے مفت تنخواہ مل رہی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جو اسٹیل ملز لے گا وہ اس کی زمین بھی بیچ ڈالے گا۔ اسٹیل مل کے اسکول اور ہاؤسنگ سوسائٹی چل رہی مگر آمدن صفر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل افسران صبح آتے اور شام 5 بجے گھر جا کر سو جاتے ہیں۔ 3 ہزار 700 ملازمین اور 405 افسران کیا کر رہے ہیں ؟ سب کو فارغ کریں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اسٹیل مل کا چیئرمین ملک سے باہر گھوم رہا ہے اور یہاں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرہ نے کہا کہ فروری میں نئی کمپنی بنا رہے ہیں اور اس عمل کی منظوری کے لیے مارچ میں ای سی سی میں پیش کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو علم ہے عدالت کا فیصلہ ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری نہیں کی جا سکتی ؟

وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو نے کہا کہ مجھے معلوم ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری اور سیکرٹری منصوبہ بندی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے روزانہ اسٹیل ملز پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ آپ کو کوئی درد نہیں کہ ملک کا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اگر آپ اسٹیل مل چلانے کے اہل نہیں تو کسی اور کو آنے دیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے تماشہ بنایا ہوا ہے جبکہ اسٹیل مل کے ساتھ کراچی شپ یارڈ، ہیوی مکینکل اور پی آئی اے سب بند پڑا ہے۔ قوم کا پیسہ بے دریغ خرچ ہونے پر کیا وجوہات دیں گے؟

انہوں نے کہا کہ آپ کے جہاز چین اور ترکی میں بن رہے ہیں جبکہ آپ کے پاس اتنا بڑا شپ یارڈ ہے یہاں جہاز کیوں نہیں بناتے ؟ پوری دنیا میں اسٹیل انڈسٹری کو عروج حاصل ہے لیکن آپ سے مل نہیں چل رہی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسٹیل ملز کا 400 ارب کا قرض کون اتارے گا ؟ اور اسٹیل مل پر روزانہ 2 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ آپ لوگ اسٹیل مل کا سارا سامان بیچ دیں گے اور فارغ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملک کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ افسران کو بس پروموشن کی پڑی ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ نے فریقین کو اسٹیل مل معاملات مل بیٹھ کر حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سینئر وکیل رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کر دیا اور ملازمین کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے اسٹیل مل کی نجکاری سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن اور سیکرٹری صنعت و پیداوار کو 2 ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں