سپریم کورٹ نے صحافیوں پر تشددکی عدالتی انکوائری کا حکم دے دیا

سپریم کورٹ نے 100 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے دفعہ 144 کو انگریزکا کالا اورکلونیل قانون قرار دیا ہے۔ انہوں نے صحافیوں پرتشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالتی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے سیشن جج سہیل ناصرکو دس دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کو بھی انکوائری کمیشن کے روبرو پیش ہونے کے احکامات دیے ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو صحافی رہنما پرویز شوکت نے کہا کہ ہر سال تین مئی کو آزادی صحافت کا دن پوری دنیا میں منایاجاتا ہے۔ اس دن ریلی نکالی تو پولیس نے رکاوٹ ڈالی اورتشدد کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن شہری ہیں، ہم عدلیہ اورقانون کا احترام کرتے ہیں، عدلیہ کے نوٹس لینے پر خوشی ہوئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے دفعہ 144 کے مسلسل نفاذ پر وضاحت طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کب سے نافذ ہے؟ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ 2014 سے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سی صاحب! کیا آپ قانون نہیں جانتے؟ کس اتھارٹی کے تحت آپ یہ ایکسر سائز کرتے ہیں؟ دفعہ 144 کا نفاذ کرکے آپ انسانی حقوق بھول گئے؟

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ دفعہ 144 تو مخصوص حالات کے لیے ہوتی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ تاحیات دفعہ 144 کا نفاذ کردیا جائے۔

چیف جسٹس ثاقب نثارنے استفسار کیا کہ دفعہ 144 کا نفاذ کتنے عرصے کے لیے ہوسکتا ہے؟ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 144 کا نفاذ دوماہ کے لیے ہو سکتا ہے۔

عدالت عظمی نے صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کے ساتھ فراڈ کررہے ہیں، ہر دو ماہ بعد دوبارہ دفعہ 144 کا نفاذ کردیا جاتا ہے۔ یہ اقدام قانون کے ساتھ فراڈ ہے۔

بنچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ ریڈ زون میں کس قانون کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں ہے؟ اور کس کو اجازت ہے؟ آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے،ریلی کے لیے این او سی لینا قانونی تقاضہ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پولیس کا مؤقف ہوگا کہ ریڈزون میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی، صحافیوں کے پاس کوئی لاٹھی غلیل تو نہیں تھی۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ محکمہ پولیس اسلام آباد صحافیوں کی عزت کرتا ہے اورپولیس نے انہیں ریڈ زون میں جانے سے منع کیا تھا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے پتھر پھینکے؟ کوئی گملا توڑا؟ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ڈی چوک پر صحافیوں نے پولیس حصار توڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ پولیس کی جانب سے بھی واقعہ کی تفتیش کروائی جائے گی۔

عدالت عظمی کے چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کا احتجاج پرامن تھا اور پرامن احتجاج یا خواتین پر ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ بہنوں کا احترام معلوم نہیں کہاں گیا؟ حکام کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا حق نہیں ہے اوردنیا میں لوگ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس میں استفسار کیا کہ کیا صبح پانچ لوگ ایک ساتھ واک کررہے ہوں تو انہیں بھی پکڑ لیا جائے گا؟ دفعہ 144 کا نفاذ کرکے مقامی انتظامیہ بھول گئی۔


متعلقہ خبریں