سینیٹ انتخابات: الیکشن کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کا بغور جائزہ لیکر نئی تجاویز کیساتھ کل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں بن سکتا، جو کچھ ہو رہا ہے اس پر الیکشن کمیشن کو اپنا ردعمل دینا ہوگا، انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنی ہوگی، ووٹوں کی خریدوفروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ آپ خفیہ بیلٹ کو تبدیل کردیں، موجودہ قانون کے تحت ہی کرپشن روکنے کا کہہ رہے ہیں۔ 

،چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن بتائے کہ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کیسے روکیں گے؟ الیکشن ایکٹ میں کسی بھی کرپٹ پریکٹس کا ذکر واضح نہیں
انتخابات سے قبل اور بعد میں سیاسی مداخلت سمیت کرپٹ پریکٹس کیلئے گارڈ کا لفظ ہے۔ کرپٹ پریکٹس کو گارڈ کرنے کا مطلب الیکشن سے پہلے حفاظتی انتظامات کیے جائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انتخابات میں سیاسی مداخلت اور پیسے کا استعمال ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن میکنزم بتائے کہ کیسے کرپٹ پریکٹس کو روکا جائے۔ آپ نے کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں؟۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ  نے عدالت کو بتایا کہ ہم آرٹیکل 226 کے تحت تمام اقدامات کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہہ ہم نے جو پوچھا ہے اس کا جواب نہیں دے رہے ہیں،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر الیکشن کے 3 ماہ بعد کوئی بیلٹ پیپر دیکھنا چاہے تو کیا ہوگا؟

چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ نے کہا کہ بیلٹ پیپر پر ووٹر کا سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ووٹر کے بارے میں معلوم کرنا بھی ہے تو آئینی ترمیم کی جائے۔ ہم نے سینیٹ انتخابات سے متعلق بہت غور و خوض کیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو خرید و فروخت ہو رہی ہے اس کو روکنے کے لیے کیا کیا ہے؟

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی کی ایک قانونی حیثیت ہے۔ آپ ایک ویجیلنس سیل بن سکتے ہیں۔ کرپٹ پریکٹس پر کسی کو کال کرکے بلایا ہے؟۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر اگر ہماری مانیٹرنگ ٹیم یا کوئی بھی شکایت آتی ہے تو ایکشن لیتے ہیں۔  انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ الیکشن: خاتون اوّل کی قریبی دوست بھی امیدوار

جسٹس یحییٰ آفریدی نے الیکشن کمشنر کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ کمیشن کے اختیارات بہت ہیں ان کو استعمال کریں۔

چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو جواب دیا کہ ہم آپ کے احکامات پر کام کرتے رہیں گے۔ گزشتہ روز ایک سیاسی پارٹی نے جلسہ کیا اس پر ہم نے ایکشن لیا ہے۔ عدالت کو تحریری جواب جمع کروا چکے ہیں۔

چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنی ہوگی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے شاید ہمارے گزشتہ روز کے حکم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ آپکو معلوم نہیں پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے؟ ضابطہ اخلاق بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ مانٹرینگ اور پولیٹیکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا ہے۔ یہ افسران کے کرنے کا کام ہے آپ خود کیا کرتے ہیں؟

چیف الیکشن کمشنر نے جب عدالت کو بتادیا کہ  جو ویڈیو وائرل ہوئی اس پر ایکشن لیا ہے، اس کا ابھی پتہ لگا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو افسوس ہے کہ 2018 کی ویڈیو کے بارے میں کمیشن کو نہیں علم۔ آپ ایک آئینی ادارہ ہیں،مینڈیٹ آپکے پاس ہے،کسی کا انتظار نہ کریں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ویڈیو کے بارے میں کمیشن کے علاوہ پورا پاکستان جانتا تھا۔

چیف الیکشن نے جب کہا کہ ہم کام کررہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو مسئلہ ہے کہ آپ کچھ کر نہیں رہے ہیں۔ جو آئین آپ کو کہہ رہا ہے وہ آپ نے پہلے کرنا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ عام انتخابات میں ٹریبونل کو بیلٹ اور دیگر اشیا کا جائزہ لینے کا اختیار ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو کہ میں نے ایک پرپوزل بنائی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے اقدامات سامنے نہیں آرہے۔ لوگوں کو شفاف الیکشن کے لیے مطمئن کیا گیا۔ لوگوں کو تسلی دینے کے لیے کوئی کا م کیا ہے؟

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کردہ رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو کل دوبارہ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔


متعلقہ خبریں