مرحوم حسن سدپارہ کا بیٹا حکومتی وعدوں کی تکمیل کا منتظر

حسن سدپارہ کا بیٹا حکومتی وعدوں کی تکمیل کا منتظر

(عارف سدپارہ (فوٹو: ہم نیوز


دنیا بھر میں پاکستان کانام روشن کرنے والے علی سد پارہ اب ہم میں نہیں رہے، انہی کی طرح کے ایک اور کوہ پیما حسن سدپارہ کے بیٹے عارف سدپارہ والد کی وفات کے تین سال بعد بھی حکومتی وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں۔  

ورلڈ ریکارڈ ہولڈر کوہ پیما حسن سدپارہ کے بیٹے عارف سدپارہ نے ہم نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ ان کے والد نے محدود وسائل اور حکومتی سرپرستی کے بغیر کئی ریکارڈز بنائے تاہم آج بھی حکومت نے ان کے والد کی وفات ہر جو وعدے ان سے کیے، ان کی تکمیل نہ ہو سکی۔ 

عارف سدپارہ نے اپیل کی ہے کہ وفاقی اور گلگت بلتسان کی حکومتوں نے علی اور حسن سدپارہ کو انعامات دینے کے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے کیے جائیں۔ 

کے ٹو ایک ایسا مقام ہے جہاں چرند پرند کی موجودگی تو دورآکسیجن بھی بہت کم ہے۔ کے ٹو پر زندگی کے آثار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر سردیوں کی بات کریں تو وہاں 35 سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے ہوا چلتی ہے۔

Ali Sadpara
علی سدپارہ

موسمِ سرما میں کے ٹو کا درجہ حرارت منفی 80 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں  اگر انسان میں بہت زیادہ قوت مدافعت بھی ہو تو بھی وہاں مشکل سے 10 سے 12 گھنٹے ہی گزارہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس دورانیہ سے 5 منٹ زیادہ بھی انسان وہاں رک جائے تو 99 فیصد موت کا خطرہ اس پر منڈلاتا رہتا ہے۔ 

عارف سدپارہ کا کہنا ہے کہ زندگی اور موت کوہ پیمائی کا حصہ ہے مگر جدید وسائل سے کوہ پیمائی کے دوران حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے علی سدپارہ جیسے کوہ پیما معمولی اوزار استعمال کرکے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا لیتے ہیں۔

ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مرحوم کوہ پیما حسن سدپارہ کے بیٹے عارف سدپارہ نے کہا کہ ایک خوشی کی خبر تھی جو غم میں بدل گئی۔ محدود وسائل ہونے کی وجہ سے ہمارے بہت سارے کوہ پیما بڑی بڑی اچیومنٹس سے دور ہیں، اگر کوہ پیماؤں کو مواقع اور سہولیات مل جاتی ہیں تو پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد حسن سدپارہ، محمد علی سدپارہ، صادق سدپارہ وہ ہیروز ہیں جو پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں اور پوری دنیا ان کو تسلیم کرتی ہے۔ ہماری حکومتیں دیگر کھیلوں کی طرح تعاون نہیں کرتیں۔ 

حسن سدپارہ

عارف سدپارہ کا کہنا تھا کہ نارمل ٹمپریچر میں کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں حصہ لینے والے ہیروز کو چھکے مارنے پر بھی کروڑوں روپے اور اسلام آباد میں گھر دیئے جاتے ہیں۔ ان کو تمام سہولیات دی جاتی ہیں مگر اس کھیل میں جہاں ایک ایک قدم پر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں حکومت کی جانب سے ترجیحات نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

عارف سدپارہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے علی سدپارہ کے لیے کئی انعامات دینے کا اعلان کیا مگر ان کی زندگی میں وہ وعدے پورے نہ ہوسکے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کم از کم ان کے مرنے کے بعد وہ وعدے پورے کیے جائیں۔ 

انہوں نے کہا کہ میرے والد حسن سدپارہ کو حکومت نے اسلام آباد میں پلاٹ اور گھر دینے کا حکومت نے وعدہ کیا۔  گلگت بلتستان حکومت نے انہیں 10 کنال زمین دینے کا اعلان کیا لیکن آج تک وہ چیزیں نہیں ملیں۔

حسن سدپارہ

ان کا کہنا تھا کہ محمد علی سدپارہ کے لیے بھی سب اعلانات کیے گئے مگر کچھ نظر نہیں آیا کبھی کہا جاتا ہے کہ ان کے نام سے گلائمبنگ انسٹیٹیوٹ کھلیں گے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اسکول کھلیں گے مگر نظر نہیں آتا۔ یہ وعدے میرے مرحوم والد کے لیے بھی ہوئے تھے مگر ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ آج بھی سپریم کورٹ میں والد کے حق کے لیے دوڑ رہا ہوں کہ مجھے حق ملے۔ 

عارف سدپارہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد حسن سدپارہ نے چار دن میں ماونٹ ایورسٹ کو سرکیا، اس کے علاوہ دونوں نے آٹھ ہزار کی دو چوٹیاں پانچ دن میں سر کرنے کے ریکارڈ بنائے، مگر وہ غیرملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ پورٹر کا کام کرکے زندگی گزارتے تھے، حکومت نے کبھی ان کی مالی مدد نہیں کی۔ 

عارف سدپارہ نے حکومت سے اپیل کی کہ ان ریکارڈ ہولڈرز کے لیے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔ 


متعلقہ خبریں