ناصر کاظمی کو بچھڑے 49 برس بیت گئے

فوٹو: فائل


عظیم شاعر ناصر کاظمی کو مداحوں سے بچھڑے 49 برس بیت گئےہیں۔  

غزل گو شاعرغم دوراں اور غم جاناں کے درد سے آشنا ناصر رضا کاظمی نے اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا صرف 13 برس  کی عمر میں کی۔

ناصر کاظمی کے اشعار میں محض عشق ہی نہیں بلکہ ہجرت اور جدید دور کے مسائل بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے سچے جذبوں اور احساسات کی بدولت اردو غزل کا دامن ایسے موتیوں سے بھر دیا کہ اردو ادب کی تاریخ میں امر ہو گئے۔ 

زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے

ناصرکاظمی کی نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں، دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا، دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی اور نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں جیسی  غزلوں پر آواز کا جادو جگا کر کئی گائیک بام عروج کو پہنچ گئے۔ 

عہد ساز شاعر کی غزلوں پرمشتمل تین مجموعہ کلام’’ برگِ نے‘‘،’’ دیوان‘‘ اور ’’بارش‘‘ شائع ہوئے۔ ناصر کاظمی نے  نظموں کا مجموعہ ’’نشاط خواب ‘‘ بھی اپنے قارئین اور چاہنے والوں کو دان کیا۔

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

8 دسمبر 1925 کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنی 47 سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا۔ اُن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔

ناصر نے شاعری میں اپنی لفظیات اور حسیات کے پیمانے رومانوی رکھے اس کے باوجود اُن کا کلام عصرِ حاضر کے مسائل سے جڑا رہا۔

سفرِ خامہ طے ہوا ناصرؔ
تھک گئے ہم مگر نہ ہاری غزل

چھوٹی بحر کے خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی غزلیں اور منفرد استعارے اُن کی شاعری کو دیگر ہمعصر شعرا کے اُسلوبِ کلام  سے ممتاز کرتے ہیں۔

جذبے کی شدت اور اظہار کی سادگی سے نمایاں مقام حاصل کرنے والے ناصر کاظمی دو مارچ 1972  کو دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ناصر کاظمی  کی شاعری کے جلتے چراغ اب بھی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ 


متعلقہ خبریں