کورونا وبا، سیکیورٹی خطرات کے باوجود پوپ فرانسس عراق پہنچ گئے

کورونا وبا، سیکیورٹی خطرات کے باوجود پوپ فرانسس عراق پہنچ گئے

سیکورٹی خدشات اور کورونا وبا کے باوجود پوپ  فرانسس تین روزہ دورے پر مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق پہنچ گئے۔ کئی عشروں بعد کسی بھی پوپ کا عراق کا یہ پہلا دورہ ہے۔

دورہ عراق کے دوران پوپ فرانسس کی حفاظت کے لیے عراقی سیکیورٹی فورسز کے 10 ہزار کے قریب اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں، جبکہ جگہ جگہ بینرز اور پوسٹرز پوپ کے استقبال کے لیے آویزاں کیے گئے ہیں۔ بل بورڈز پر پوپ کی تصاویر کے ساتھ درج ہے،” ہم سب بھائی ہیں۔‘‘

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق بغداد کے ہوائی اڈے پر عراقی وزیراعظم مصطفیٰ القدیمی نے 84 سالہ پوپ فرانسس کا استقبال کیا۔

پوپ فرانسس کےدورے کا مقصد عراق کی عیسائی آبادی کا اعتماد بحال کرنا اور کئی سالوں سے اس ملک میں بد امنی کے شکار لوگوں کے مابین رواداری اور بھائی چارگی کا فروغ ہے۔

پوپ عراق میں مقامی مسیحی آبادی اور مسلمانوں کو مل جل کر امن قائم کرنے اور جنگ سے تباہ حال اس معاشرے کی تعمیر نو میں حصہ لینے کی ترغیب دلانا چاہتے ہیں۔عراق میں جاری جنگ و جدل اور بدامنی کے ہجرت کے باعث اس ملک کی عیسائی آبادی تیزی سے کم ہوئی ہے۔

پوپ فرنسس کے دوران کورونا کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے مختلف شہروں میں 24 گھنٹے کرفیو بھی نافذ کیا جارہا ہے۔ وہ عراق کے شمال میں واقع اربیل میں ماس میں بھی شرکت کریں گے۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق کورونا وبا کی موجودہ خطرناک صورتحال اور عراق میں آئے دن کے دہشت گردانہ حملوں کے باوجود پوپ فرانسس نے عراق کے دورے کا جو فیصلہ کیا وہ اس ملک کی کرسچن آبادی کی حوصلہ افزائی کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

مزید پڑھیں: چین میں پوپ فرانسس کے فیصلوں کو سراہا جانے لگا

ڈی ڈبلیو کے مطابق ایک بزرگ عراقی مسیحی خاتون کرجیہ بقتر نے اپنے ضعیف ہاتھوں سے سنہری دھاگے کی کشیدہ کاری کر کے ایک ‘دعائیہ شال‘ تیار کی ہے جو وہ پوپ فرانسس کو پیش کرنے جا رہی ہیں۔ اس خاتون کا تعلق شمالی عراق کے ایک قصبے قراقش سے ہے جہاں 2014ء میں داعش یا ‘آئی ایس‘ نے دہشت گردانہ کارروائیاں کی تھیں اور اس قدیم عراقی ثقافتی علاقے کو تباہ کر دیا تھا۔ قراقش کے ایک قدیم کلیسا ‘الطاہرہ چرچ‘‘ کے پادری عمار یاقو نے دو میٹر طویل اس شال کو ڈیزائن کیا ہے اور کرجیہ بقتر نے ایک اور خاتون ادھرا دبول کے ساتھ مل کر اس پر کشیدہ کاری کی ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق پوپ فرانسس کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ کے خطے اور بڑی حد تک عالمی سیاسی پس منظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی باشندے پوپ کے اس دورے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ پاپائے روم کی طرف سے ”امن اور رواداری کے پیغام‘‘ کی علامت سمجھے جانے والے اس دورے سے بہت خوش ہیں۔ عراقی وزیر نے مزید کہا،” پوپ کا یہ دورہ میناروں اور کلیسا کے گھنٹوں کی ایک تاریخی ملاقات ہے۔‘‘

پوپ فرانسس  تین روزہ دورے کے دوران ممتاز شیعہ عالم دین آیت اللہ السیستانی  سے بھی ملاقات کریں گے۔ السیستانی مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔

خیال رہے کہ 1999 میں پوپ جان پال نے سابق عراقی صدر صدام حسین کے ساتھ بات چیت ناکام ہونے کے بعد جب عراق کا اپنا دورہ ملتوی کردیا تھا تو اس وقت پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ عراقی عیسائیوں کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔


متعلقہ خبریں