قابل شناخت ووٹ مسترد، معاملہ چیلنج نہیں ہوسکتا، سابق اٹارنی جنرل



سابق اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کہا ہے کہ اگر کسی طریقے سے ووٹ قابل شناخت ہوجائے تو وہ مسترد ہوجاتا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام’بریکنگ پوائنٹ ود مالک‘ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ پر کوئی نشان لگ جائے جس سے ووٹ قابل شناخت ہو تو وہ ووٹ مسترد ہوتا ہےَ

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 69 کے تحت معاملہ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے2007 میں ایک کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ووٹر کی نیت اگر کسی بھی طرح ظاہر ہوجائے تو اس کو رد کیا جا سکتا ہے اور 2013 میں بھی ایک کیس میں ایسا ہی فیصلہ دیا تھا۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ ہونا چاہیے تھا۔ جب میں نے بیلٹ پیپر نہیں دیکھا تھا تو اس میں ابہام موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر نام پر مہر لگائی جائے تو وہ ووٹ مسترد نہیں ہوتا۔ پریذائیڈنگ آفیسر کی رولنگ سن کر افسوس ہوا۔ اشتر اوصاف نے کہا آرٹیکل199کے تحت عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

پروگرام میں شریک پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن جس بھی آرٹیکل کے تحت چیلنج کرنا چاہتی ہے کرے۔ مسلم لیگ ن سمیت تمام لوگوں کو سمجھایا کہ ووٹ کیسے کاسٹ کرنا ہے۔

ہم چاہتے تھے کہ سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ ہوتا۔ اوپن بیلٹ کی مخالفت کرنے والے آج کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی نام پر مہر نہیں لگائی جاتی۔ یوسف رضا گیلانی سے محبت کرنےو الوں نے ان کے نام پر مہر لگائی۔

ن لیگی رہنما مصدق ملک نے کہا کہ پوسٹر پر بھی لکھا ہوا تھاکہ مہر خانے کے اندر لگانی ہے۔ ایک ہی خانے میں نام لکھا ہوا تھا اور اس ہی خانے میں کہیں بھی مہر لگانی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ نام کے سامنے کوئی خانہ نہیں تھا جہاں مہر لگائی جاتی۔ انہوں نے کہا پریذائیڈنگ آفیسر کی تعیناتی پراعتراض کرنے کا ہمارے پاس کوئی قانونی حق نہیں تھا۔


متعلقہ خبریں