شہزاد اکبر سے تعلق رکھنے والے شخص نے قتل کی دھمکی دی لیکن تفتیش روک دی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں فل کورٹ بننے کا امکان

سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مجھے قتل کی دھمکی دینے والے افتخارالدین مرزا کا ‏تعلق شہزاد اکبرسے نکلا لیکن تفتیش روک دی گئی۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ کے سامنے اپنی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے دلائل دیے کہ موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے ‏کرجا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وارشروع کی گئی ہے۔ حکومت سوشل میڈیا بریگیڈ منہ ‏چھپا کرحملے کررہی ہے۔ عدالت نے فردوس عاشق اعوان ‏کیخلاف کارروائی کا کہا، انہیں پنجاب میں اچھا عہدہ مل گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انسان اکیلا اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ مجھے برا بھلا نہیں کہا جارہا بلکہ پوری سپریم کورٹ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ میرے خلاف شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر نے یو ٹیوب پر اعتراف کیا کہ وہ ایک ٹاؤٹ ہے۔ عبدالوحید ڈوگر نے کہا کہ وہ حساس ادارے کا ٹاؤٹ ہے۔  وحید ڈوگر کی شناخت کیا ہے؟ کوئی نہیں بتاتا۔ پاکستان میں اس وقت ڈوگر جیسے ٹاؤٹ بھرے پڑے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔ جو کچھ میں یہاں بولتا ہوں اس کے برعکس چلایا جاتا ہے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قاضی صاحب ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ ایک بندے سے سن کر اگلا بندا بتاتے ہوئے آدھی بات بھول جاتا ہے۔ امریکہ میں عدالتی کاروائی براہ راست نہیں بلکہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے،

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم امریکہ کے غلام نہیں نہ ہی انکے پیچھے چلنے کے پابند ہیں۔ ہمارے پاس ایمان کی طاقت ہے ہمارا رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ امریکہ میں عوام کے حقوق جس انداز میں دیئے جاتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس منظور ملک نے میری رہنمائی کی ہے۔ جسٹس منظور ملک کی ہدایت پر کوشش ہے جذباتی نہ ہوں۔ عدلیہ کے خلاف فیفتھ جنریشن وار شروع کی گئی ہے۔ ملک دشمنوں کے خلاف فیفتھ جنریشن وار نہیں ہورہی۔ موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لیکر جارہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بوتھم نے عمران خان پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگایا تھا۔ عمران خان نے بوتھم پر مقدمہ کیا جیت گئے۔

مزید پڑھیں:جسٹس قاضی فیض عیسٰی کیخلاف صدارتی ریفرنس آئین اور قانون کے خلاف ہے، سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آٹھ ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے۔ ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت خود دیکھ سکتی ہے میڈیا پر کاروائی کتنی رپورٹ ہوتی ہے۔ چاہتا ہوں لوگ میری بات براہ راست سنیں۔ میری گفتگو کا مکمل حصہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  آغا افتخار الدین مرزا نے مجھے قتل کی دھمکی دی۔ میری اہلیہ مقدمہ درج کرانے گئی تو پولیس نے کہا وزیر داخلہ سے اجازت لیں گے۔5 دن بعد پولیس نے مقدمہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا۔مرزا افتخار الدین کو سپریم کورٹ میں پروٹوکول دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں قتل ہوا تو شہید کہلاؤں گا جنت میں جاوں گا۔ ریاست مدینہ افتخار الدین مرزا کو آزاد کر رہی ہے۔ افتخار الدین مرزا کا تعلق شہزاد اکبر سے نکلا لیکن تفتیش روک دی گئی۔ میری اہلیہ نے آئی ایس آئی سے تحقیقات کا کہا لیکن ان سے تفتیش نہیں کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے کیس میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف کارروائی کا کہا۔ فردوس عاشق اعوان کو پنجاب میں اچھا عہدہ مل گیا۔

اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ  آپ نے ہمارا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے۔ ہر کوئی یہی کہے گا فیصلہ چیلنج ہونے کے باوجود ان پر عمل کریں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو نہیں کہہ رہا کہ فردوس عاشق اعوان کو جیل بھیجیں۔ کھبی خود بھی توہین عدالت کیس میں کسی کو جیل نہیں بھیجا۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ  یوٹیوب چینل نہیں بنا سکتا ہے اس لیے عدالت میں کھڑا ہوں۔ میرے نام سے تین جعلی ٹوئٹر اکاونٹس بنے ہوے ہیں۔ 3 بار خط لکھ چکا میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر مملکت بھول جاتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں۔ کیچڑ مجھ پر اچھالا گیا لیکن برداشت ان سے نہیں ہورہا تھا۔ صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر تین انٹرویوز دیے۔ صدر نے کہا ریفرنس پر خاموش رہنے اور میڈیا ٹرائل کا بھی آپشن تھا۔ صدر نے کہا تیسرا آپشن جوڈیشنل کونسل کا تھا جو استمعال کیا۔ صدر کبھی میڈیا ٹرائل نہیں کرواتے یہ خود ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس: 10 رکنی لارجر بینچ تشکیل

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہو گا ان باتوں پر نہ جائیں۔ عدالت جس سماعت کیلئے بیٹھی ہے اس سے بات دوسری طرف جاچکی ہے۔ ہمیں کمنٹری سننے پر مجبور نہ کریں۔ آپ بات اسطرح لے گئے کہ حکومت نے آپ کی تضحیک کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سچ بولتا رہوں گا چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ ریفرنس پر کوئی بیان جاری نہیں کیا خبر حکومت نے لیک کی۔ مزید تین سال بینچ میں رہنے یا پینشن لینے میں کوئی دلچسبی نہیں۔ میری دلچسبی صرف عدلیہ کی عزت اور احترام میں ہے۔

دوران سماعت جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان اور ‏فروغ نسیم نے اختیارات کا ناجائزاستعمال کیا۔۔حکومتی عہدیداروں کا رویہ تضحیک ‏آمیزہے۔وہ وزیراعظم ‏عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ عدالت حکم دے توبراہ راست کوریج کا بندوبست کرسکتی ہوں۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ  سپریم کورٹ اور ایف بی آر پیشی کے وقت میرے ویڈیو کلپ بنائے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون اور شہزاد اکبر نے میرے خاوند کو جج کے عہدے سے برخاست کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان سمیت حکومتی مشینری نے غیر قانونی طور پر ہمارا ریکارڈ حاصل کیا۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اپنی رقم سے خریدی جائیداد راتوں رات میرے شوہر کی بنادی گئی۔ فروغ نسیم نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عہدے کا نا جائز استمعال کیا۔کبھی وزیر کبھی وکیل فروغ نسیم عدالت کیساتھ کھیل رہے ہیں۔جون 2020 تک کے میرے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی گئی۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں۔ شہزاد اکبر نے نوکری شروع کی تو انکی تنخواہ 35 ہزار تھی۔ شہزاد اکبر سے 22 سال پہلے سے نوکری کر رہی ہوں۔شہزاد اکبر آج امیر آدمی ہیں کھبی اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ شہزاد اکبر کے حوالے سے ہر سچ پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر شہزاد اکبر کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ آغا افتخار نے سپریم کورٹ جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ آغا افتخار کیس میں شہزاد اکبر کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا،۔ کیس کی براہ راست کوریج سے سچ عوام کے سامنے لایا جائے۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائزعیسی نظرثانی کیس کی براہ راست کوریج کی ‏مخالفت کردی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی کارروائی تکنیکی نوعیت کی ‏ہوتی ہے۔ ججزکے سوالات سے عام آدمی سمجھنے کی بجائے کنفوژہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ‏ججزکے کنڈیکٹ پرپارلیمنٹ میں بھی بحث نہیں ہوسکتی۔ ۔۔براہ راست کوریج سے ‏عدالتی وقارمیں بھی کمی ائے گی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان نے کیس کی براہ راست کوریج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ججزٹی وی پرنہیں اپنے ‏فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔

جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل ‏مضبوط ہیں اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عدالت نے دلائل کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں