عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق جسٹس فائز عیسی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ


سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔

دس رکنی فل کورٹ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرکاری وکیل نے گزشتہ روز انگریزی زبان بولنے کی بات کی۔ جب پاکستان بنا3 زبانیں تھیں۔ اردو اور انگریزی کے علاوہ یہاں بنگالی کسی کو نہیں آتی۔ قائد اعظم محمد علی جناح انگریزی میں تقریر کرتے تھے۔ قائد اعظم کی بات لوگوں کو سمجھ نہیں آتی تھی پھر بھی کہتے تھے سچا لیڈر ہے۔  ہماری کابینہ کے لوگوں کو تو عربی نہیں آتی کیا وہ مسلمان نہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلوچستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کا نام لیتے ہوئے ہم کانپنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف قوم کے نوکر تھے۔ ہم ججز بھی قوم کے نوکر ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر قانون نے میری درخواست کی مخالفت نہیں کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے حکومت ،صدر اور اٹارنی جنرل کی طرف سے مخالفت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کبھی نہیں کہا کہ تمام مقدمات میں براہ راست کوریج ہو۔ صرف اپنے کیس کی براہ راست کوریج کی استدعا کی ہے۔ دکھانا چاہتا ہوں عدالت سب کو عوامی سطح پر قابل احتساب بناتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ سب ججز میرے جونیئر ہیں۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ جونیئر جج کبھی سینئر کے خلاف فیصلہ نہیں دیں گے۔ کہا گیا عدالت معاملہ فل کورٹ میٹنگ میں بھجوا دے۔ اگر چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ ہی نہ بلائیں تو کیا ہو گا؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو ججز میرا کیس سننے سے معذرت کر چکے ہیں۔ تین ججز سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں۔ 5ججز میرے حوالے سے فل کورٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر سے تعلق رکھنے والے شخص نے قتل کی دھمکی دی لیکن تفتیش روک دی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آپ نے کیسے تعین کر لیا ججز شرکت نہیں کریں گے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا حکومت نے کہا لوگ جاہل ہیں عدالتی کاروائی نہیں سمجھ سکیں گے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسے الفاظ حکومت نے استعمال نہیں کیے۔ آپکا بولا ہوا ہر لفظ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے۔ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کریں آپ جج ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ واحد ملک ہے جس کی قانون کی کتابیں سرکار پبلش نہیں کرتی۔ حکومت ججز کے پیچھے نہ پڑے ضروری کام کرے۔ 43 سال سے اس شعبے میں ہوں۔ آج بھی خود کو قانون کا طالب علم سمجھتا ہوں۔ ہر شخص اپنے بچے کو انگلش ا سکول میں بھیجتا ہے۔ لسانی کارڈ کے استعمال نے ملک کو تباہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی وکیل قانونی گفتگو کریں ڈرامے بازی نہ کریں۔ جسٹس منظور ملک نے جاہل کا کوئی متبادل لفظ بتایا تھا۔

اس پر جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ میں نے تو کوئی بات ہی نہیں کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلوچستان نے پاکستان بنا کر دکھایا۔ اللہ تعالی کو تکبر پسند نہیں نہ اسکی معافی ہے۔ تمام قانون اور عدالتی فیصلے نجی پرنٹنگ پریس چھاپتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ججز کے پیچھے نہ پڑیں انکی جاسوسی نہ کریں۔ ایسی صورتحال ہوئی تو اس ملک میں رہنا پسند نہیں کروں گا۔ یہ بھاشن نہ دیں کہ قوم کو عدالتی زبان سمجھ نہیں آتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا کو فیصلہ نہ کرنے دیں میری کونسی بات چلانی ہے کونسی نہیں۔ فیصلوں سے بولنا ہے تو فیصلے بعد میں میڈیا کو جاری کر دیئے جائیں۔ میڈیا اتنا آزاد ہے خبریں عمران خان اور شیخ رشید سے شروع ہوتی ہیں۔

مزید پڑھین: 19 جون کا عبوری فیصلہ: جسٹس قاضی فائز عیسی نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی

انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ کا طویل فیصلہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا تھا۔ بھٹو کیس کے 963 صفحات کا فیصلہ تھا۔ فیصلے میں نہیں لکھا کہ اوپن کورٹ میں سماعت ہوئی۔
سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سابق جج ارشد ملک کی قابل اعتراض حالت میں ویڈیو کس نے بنائی؟۔ ڈیتھ سیل سے صولت مرزا کی ویڈیو سارے میڈیا کو دی گئی۔خود کو ملک کا مالک سمجھنے والے پاگل ہیں یا فرعون؟۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا اپوزیشن ایک جج کو اوپر چڑھانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن مجھے کیسے اوپر چڑھا سکتی ہے؟  جج کو نکال دیں لیکن بلیک میل نہ کریں۔
وزیر اعظم نے ایک آئینی ادارے پر حملہ کیا۔ کل عدالت کو بھی کہا جائے گا کہ استعفیٰ دے۔ عمران خان واحد وزیر اعظم ہیں جو ہیلی کاپٹر پر دفتر آتے ہیں۔

وزیر اعظم نے ایک آئینی ادارے پر حملہ کی۔ کل عدالت کو بھی کہا جائے گا کہ استعفیٰ دے۔ چاہتے ہیں صرف فیملی اور سول مقدمات سنوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔


متعلقہ خبریں