ترکی خواتین کے حقوق اور صنفی برابری کے یورپی معاہدے سے دستبردار


ترکی نے اپنے آپ کو خواتین کے حقوق اور صنفی برابری کے یورپی معاہدے سے الگ کر لیا ہے۔

اس معاہدے کا نام’ استنبول کنوینشن‘ تھا جس کو2011 میں حتمی شکل دی گئی۔ استنبول کنوینشن پر پیتالیس ممالک اور یورپی یونین نے دستخط کیے تھے۔ یہ کنوینشن رکن ممالک کی حکومتوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ مختلف صورتوں میں خواتین پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف قانون سازی کریں۔

استبول کنوینشن کے تحت قانونی حدود کی روشنی میں ضوابط ترتیب دیے گئے تھے تا کہ شریک ممالک کی خواتین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھا جا سکے اور صنفی مساوات کے تحت انہیں دستور سازی میں شرکت، تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق اور حتی الامکان شعور و آگہی فراہم کی جا سکے۔

ترکی نے اس معاہدے سے نکلنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تاہم وزیر برائے خاندان، لیبر اور سماجی پالیسی زہرا زمرد سلجوک کا کہنا ہے کہ ملکی دستور خواتین کے حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے اور ملکی عدالتی نظام بھی بہت باوقار ہے جو خواتین کے لیے مقررہ ضوابط کے نفاذ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترکی میں قدامت پسند طبقے کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ خاندانی نظام کو متاثر کرتا ہے اور طلاق کی شرح میں اضافے کا بھی بڑا سبب ہے۔ علاوہ ازیں ہم جنس پرست بھی اس معاہدے کے تحت’مساوات‘ کی آڑ لیتے ہیں۔

ترکی میں اپوزیشن پارٹی کی ڈپٹی چیئرپرسن نے اس پر رد عمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ اس معاہدے سے دستبرداری کا مطلب خواتین کو دوسرے درجے کا شہری شمار کرنا ہے۔

صدر اردگان نے رواں ماہ خواتین کے خلاف تشدد کی مذمت کی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے کام کرے گی۔ لیکن نقادوں نے کہا ہے کہ ترکی کی موجودہ حکومت نے خواتین اور ان پر ہونے والے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے کافی کام نہیں کیا۔


متعلقہ خبریں