25 مارچ 1992، جب پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا


آج سے 29 سال قبل 25 مارچ 1992 پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن تھا جب قومی ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں انگلینڈ کو شکست دے کر دنیائے کرکٹ کے چیمپئن کا تاج سر پر سجایا تھا۔

ورلڈ کپ 1992 کے آغاز سے قبل پاکستان ٹیم کواس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس وقت کے تیز ترین فاسٹ بولر وقار یونس اور سلامی بلے باز سعید انور انجری کے باعث میگا ایونٹ سے باہر ہو گئے۔

اس کے علاوہ پاکستان ٹیم کی بیٹنگ کا ستون سمجھے جانے والے جاوید میانداد بھی کمر میں تکلیف کے باعث مکمل فٹ نہیں تھےجب کہ خود عمران خان دائیں کندھے کی انجری کا شکار رہے۔

انجریز اور اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے باعث قومی ٹیم کا توازن بگڑتا دکھائی دے رہا تھا، ایسی صورت حال میں ٹیم آسٹریلیا پہنچی تو پریکٹس میچز میں ہی انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

قومی ٹیم نے ورلڈ کپ کا آغاز میلبرن کرکٹ گراونڈ پر 23 فروری 1992 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کیا۔

ایونٹ کے پہلے ہی میچ میں عمران خان انجری کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکے تھے۔

ان کی جگہ کپتانی کے فرائض جاوید میانداد نے انجام دیئے۔ پاکستان ٹیم نے 50 اوورز میں صرف دو وکٹ پر 220 رنز بنائے۔

تاہم ویسٹ انڈیز نے یہ ہدف ڈیزمین ہینز اور برائن لارا کی عمدہ بلے بازی اور شراکت داری کے باعث بغیر کسی نقصان کے ہی ہدف حاصل کر لیا۔

اگلے میچ میں قومی ٹیم کا سامنا زمبابوے کے خلاف ہوا، عمران خان الیون نے یہ میچ عامر سہیل کی سنچری اور  وسیم اکرم کی شاندار باؤلنگ کی بدولت 53 رنز سے جیت لیا۔

پاکستان کا ٹورنامنٹ میں تیسرا میچ انگلینڈ کے خلاف تھا جس میں قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن بری طرح فلاپ ہو گئی اور محض 74 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان کی شکشت یقینی ہے تاہم اس میچ میں بارش ہو گئی اور پاکستان شکست سے بچ نکلا۔

سڈنی میں کھیلے جانے والے اگلے میچ میں پاکستان کا سامنا روائتی حریف انڈیا سے ہوا۔

یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔ قومی ٹیم کو اس میچ میں 43 رنز سے شکست ہوئی۔

اگلے میچ میں پاکستان کا مقابلہ کرکٹ کی دنیا میں واپسی کرنے والی پرعزم جنوبی افریقی ٹیم سے تھا۔ قومی ٹیم کو اس میچ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پانچ میچوں میں محض ایک کامیابی کے بعد گرین شرٹس کا ایونٹ سے باہر ہونا طے تھا  لیکن اس موقع پر یہ عمران کی شاندار قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ناکامیوں کے گرداب میں پھنسی ٹیم کی کشتی کو بھنور سے نکالا اور ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔

اگلے ہی میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کامیاب واپسی کی عامر سہیل کی بلے بازی اور گیند بازوں کی شاندار کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم 48 رنز سے کامیاب ہوئی۔

اگلے میچ میں سری لنکا کے خلاف جاوید میانداد اور سلیم ملک کی نصف سنچریوں کی بدولت قومی ٹیم نے چار وکٹ کی فتح اپنے نام کر کے ٹورنامنٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھی۔

پاکستان کا آخری لیگ میچ میں ٹورنامنٹ کی سب سے کامیاب ٹیم اور میزبان نیوزی لینڈ سے سامنا تھا۔

اس میچ میں قومی ٹیم نے نوجوان گیند باز وسیم اکرم کی شاندار باؤلنگ کی بدولت کیویز کو صرف 166 رنز پر ٹھکانے لگا دیا، اکرم نے میچ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں رمیز راجہ کی ایونٹ میں دوسری سنچری کی بدولت قومی ٹیم نے لگاتار تیسری فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیمی فائنل کی دوڑ میں بھی نام شامل کر لیا۔

سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مارٹن کرو کے 91 رنز کی بدولت 262 رنز کا بڑا ہدف دیا۔

جواب میں پاکستان ایک موقع پر 140 رنز پر چار وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔

اس موقع پر مستقبل کے سپر اسٹار انضمام الحق کی میدان میں آمد ہوئی جنہوں نے وکٹ پر آتے ہی پہلی ہی گیند سے جارحانہ بلے بازی شروع کی اور صرف 37 گیندوں پر ایک چھکے اور سات چوکوں کی مدد سے 60 رنز بنا کر بنا کر پاکستان کو فتح کی دہلیز پر پہنچا دیا اور یوں پاکستان نے ایک اوور قبل ہی ہدف تک رسائی حاصل کر کے تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان نے فائنل میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے انگلینڈ کو 250 رنز کا ہدف دیا تھا۔ فائنل میں ٹرننگ پوائنٹ وسیم اکرم کی دو گیندوں پر ایلن لیمب اور کرس لوئس کی وکٹیں تھیں جس کے بعد میچ کا پانسہ پلٹ گیا۔

اننگ کے آخری اوور میں عمران کی گیند پر رمیز راجہ کے کیچ کی بدولت پاکستان نے عالمی چیمپیئن کا تاج سر پر سجا لیا۔

پاکستان ہاکی اور سکواش میں ورلڈ کپ ونر تھا جس کے بعد کرکٹ میں بھی یہ مقام حاصل کیا جس سے ملک کے وقار میں مزید اضافہ ہوا۔

اس ایونٹ میں میانداد 437 رنز کے ساتھ ایونٹ کے دوسرے کامیاب ترین بلے باز رہے جبکہ گیند بازوں میں وسیم اکرم 18 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست رہے اور مشتاق احمد نے 16 وکٹیں لے کر ان کا ساتھ نبھایا۔

1992 کا ورلڈکپ اس  اعتبار سے بھی یکسر مختلف تھا کیونکہ اس میں کلر کٹ متعارف کرائی  گئی۔ وائٹ (سفید) بال اور بلیک (کالی) سائیڈ سکرین  کا  استعمال بھی یہیں سے شروع  ہوا جو اب بھی جاری ہے ۔


متعلقہ خبریں