انسانی یاد داشتوں پر کیے جانے والے تجربات میں کامیابی

انسانی یاد داشتوں پر کیے جانے والے تجربات میں کامیابی

برلن: جرمنی کے سائنسدانوں نے انسانی یاد داشتوں کے حوالے سے کیے جانے والے اہم تجربات میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ سائنسدانوں نے تجربات کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسانی یاد داشت میں غلط یا درست معلومات کس طرح محفوظ کی جا سکتی ہیں؟ اور انہیں کس طرح انسانی یاد داشت سے مکمل طور پر ختم بھی کیا جا سکتا ہے؟

سائنسدان جانداروں کے ڈی این اے چاند پر محفوظ کرنے کے خواہشمند

ہیگن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی ٹیم کی ریسرچ کا بنیادی مقصد نظام عدل پہ اثر انداز ہونے والی غلط یا درست یاد داشتوں کا جائزہ لینا تھا اور اس بات کا اندازہ لگانا تھا کہ انسانی یاد داشتیں نظام عدل کے لیے کس قدر سنگین مضمرات کا سبب بن سکتی ہیں؟

مؤقر انگریزی جریدے آرٹی کے مطابق یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی تحقیقاتی ٹیم نے اس مقصد کے لیے رضاکاروں پر تسلسل کے ساتھ تجربات کیے ہیں۔

جرمن محققین دراصل یہ بات جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ اگر کچھ نفسیاتی تیکنیکوں کا استعمال کرکے انسانی دماغ میں غلط یادیں داخل کردی جائیں تو وہ کس حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں؟ اور پھر یہ کہ کیا انہیں دماغ سے نکالنا بھی ممکن ہوگا یا نہیں؟

جریدے کے مطابق محققین نے ریسرچ کرنے کے لیے کل 52 رضا کاروں کا انتخاب کیا تھا اور انہیں بچپن کی کچھ کہانیاں اپنے طور پر تخلیق کرکے سنائی تھیں۔ رضاکاروں کو بچپن کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ موجودہ واقعات بھی ملا کر سنائے گئے تھے۔

محققین نے اس کے بعد رضاکاروں کے والدین کے ذریعے بھی انہیں کھیل کھیل میں غلط یادوں کو تقویت بخشنے کا کہا جس کے بعد توقع کے عین مطابق وہی نتیجہ نکلا کہ رضاکاروں نے وہی اضافی و خیالی یادوں کو حقیقت سمجھا و جانا اور اس پر یقین بھی کیا۔

پاکستانی سائنسدان آصفہ اختر جرمنی کا معتبر ترین اعزاز حاصل کرنے والوں میں شامل

جریدے کے مطابق یہ عمل اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ تمام شرکا نے مصنوعی کہانی کو حقیقی جانا، سمجھا اور اس پرمکمل یقین بھی کیا۔ ان کو یقین تھا کہ جو کچھ ہے بس وہی سچ اور درست ہے اوراس طرح سائنسدانوں کا گروپ غلط یاد داشتیں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

جرمن محققین نے اس کے بعد رضاکاروں کی یاد داشتوں میں موجود چھوٹی چھوٹی یادیں بھی نکال دیں اور اس میں انہیں کچھ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔

ایک سال کے بعد محققین کو معلوم ہوا کہ رضاکاروں میں سے 74 فیصد اپنی غلط یاد داشتیں کھو چکے ہیں۔

جریدے کے مطابق اس طرح کی تحقیق نظام عدل کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں
پراسیکیوٹرز اور پولیس سمیت دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے کسی کے بھی ماضی کے واقع کی سچائی تلاش کی جاسکتی ہے۔

کورونا: مردوں کو بانجھ بنا سکتا ہے، سائنسدانوں کا انتباہ

ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شاید روز مرہ کی زندگی میں یہ اتنا اہم نہ ہو کہ گزشتہ روز میں نے پیزا کھایا تھا یا کہ چکن؟ لیکن نظام عدل میں تو یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ دکھنے والا آدمی گھونگریالے بالوں والا تھا یا کہ سیدھے بالوں والا تھا؟ اور یہ کہ گزرنے والی کار سبز رنگ کی روشنی سے گزری تھی یا کہ سرخ رنگ کی روشنی اس پر پڑی تھی؟


متعلقہ خبریں