کون سے پاکستانی رہنما قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنے


اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال گزشتہ روز قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے، تاہم یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی متعدد پاکستانی رہنما قاتلانہ یا دیگر حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر پہلا حملہ 24 فروری 2018 کو نارووال میں ہوا۔ احسن اقبال ورکرز کنونش سے خطاب  کرنے کے لئے اسٹیج پر پہنچے تو بلال حارث نامی ایک شخص نے ان کی طرف جوتا پھینکا جو وزیر داخلہ کے برابر میں کھڑے شخص کو جا لگا۔ واقعے کے بعداحسن اقبال تقریر ادھوری چھوڑ کرواپس چلے گئے۔  پولیس نے جوتا پھینکنے والے شخص کو گرفتار کرلیا تھا۔

لاہور کی دینی درس اہ جامعہ نعیمیہ میں خطاب کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف پر جوتے کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ حملہ ہوتے ہی ہال میں بھگڈرمچ گئی جس کے بعد حملہ کرنے والے فرد کو حراست میں لے لیا گیا۔

سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف بھی اس وقت حملے کا نشانہ بنے جب سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران ایک نوجوان نے ان پر سیاہی پھینک دی تھی۔ سیاہی ان کے چہرے اور سرکے بالوں میں جاگری تھی۔

2012

جماعت اسلامی کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد مرحوم نومبر 2012 میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے۔ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ان کے قافلے پر حملہ کرنے والے مقامی انتظامیہ نے خاتون خودکش بمبار قرار دیا۔ واقعہ میں قاضی حسین احمد کے محافظ سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ حملہ کے وقت قاضی حسین احمد علاقے میں جماعت اسلامی کے تحت منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کے لئے جا رہے تھے۔

2014

جنوری 2014 میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کے نتیجے میں چھ اہلکار جاں بحق ہوئے تاہم امیر مقام معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

چند ماہ بعد اکتوبر 2014 میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ میں تین افراد جاں بحق ہوئے جب کہ مولانا فضل الرحمان بال بال بچ گئے۔

2015

16 اگست 2015 کو اٹک میں پنجاب کے وزیرداخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کو ان کے 16 ساتھیوں سمیت حملہ کر کے شہید کر دیا گیا۔

2017

مئی 2017 میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری کے قافلے کو دھماکے سے اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ حملے میں 25 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ عبدالغفور حیدری خوش قسمت رہے۔


متعلقہ خبریں