پاک بھارت بیک چینل ڈپلومیسی: حکام کی خلیجی ملک میں ملاقات، رائٹرز

پاک بھارت بیک چینل ڈپلومیسی: حکام کی خلیجی ملک میں ملاقات، رائٹرز

نئی دہلی: پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ انتیلی جنس افسران کے درمیان سال رواں کے پہلے مہینے میں خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ بات چیت ایک خلیجی ملک میں ہوئی ہے۔

وزیراعظم کی زیرصدارت پاک بھارت تعلقات کے متعلق اجلاس طلب

ہم نیوز نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کی بابت اسے بھارتی دارالحکومت دہلی میں موجود انتہائی باخبر ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بات چیت کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے فوجی تناؤ کو کم کرنا تھا۔

ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ممالک کے مابین موجود تعلقات میں مزید سرد مہری اس وقت پیدا ہوئی تھی جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قافلے پر خود کش حملے ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس نے بدلہ لینے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر اینی جنگی جہاز بھیجے تھے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین گوکہ تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار تو پہلے بھی نہیں تھے لیکن ان میں مزید اس وقت خرابی پیدا ہوئی جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی۔

بھارتی وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان میں مزید غم و غصہ پیدا ہوا اور دو طرفہ تجارت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ صورتحال اس حد تک گھمبیر ہوئی کہ سفارتی تعلقات تک منقطع کرنے کی بات کی گئی۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دونوں ممالک کے مابین دبئی میں ہونے والے خفیہ مذاکرات سے آگاہ ذرائع نے کہا ہے کہ بات چیت کا بیک ڈور چینل کھولنے کا بنیادی مقصد آئندہ مہینوں کے دوران تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے۔

مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ سے وجہ تنازع رہا ہے۔ کشمیر پر دونوں ممالک دعویدار ہیں۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق بیک ڈور چینل کے ذریعے ہونے والی بات چیت سے آگاہ افراد نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بتایا کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران کے درمیان دبئی میں بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لیے دبئی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس ضمن میں رابطہ کرنے پر بھارتی دفتر خارجہ نے کسی بھی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا جب کہ پاکستان کے عسکری ذرائع نے بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان کی ایک اعلیٰ دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اینٹیلی جنس حکام کسی تیسرے ملک میں گزشتہ کئی ماہ سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔

عائشہ صدیقہ کے خیال میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے افسران تھائی لینڈ، دبئی یا پھر لندن میں ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کی ملاقاتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور بطور خاص ان ایام میں جب کہ بحرانی کیفیت ہو مگر ان کا برملا اعتراف کبھی نہیں کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق دہلی میں موجود ایک ذمہ دار شخص کا کہنا ہے کہ بہت سی باتیں اس حوالے سےغلط بھی ہو سکتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوامی طور پر اس کے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ ان کا واضح طور پرکہنا تھا کہ یہ کوئی امن عمل نہیں ہے البتہ اس کو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دوبارہ ایک دوسرے کو بات چیت میں مشغول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کے پاس معقول وجوہات بھی ہیں۔ مثلاً، بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع میں الجھا ہوا ہے اور اس وقت قطعی طور پر نہیں چاہتا ہے کہ اسے اپنی فوج پاکستان کی سرحدوں پر بھی پھیلانی پڑی۔

پاک بھارت جنگ بندی پر اقوام متحدہ اور امریکہ کا خیرمقدم 

خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسی طرح پاکستان جو معاشی مشکلات کا شکار ہے اور آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام بھی لے چکا ہے، اس کی زیادہ تر توجہ افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کو مستحکم کرنے پہ مرکوز ہے کیونکہ امریکہ کے وہاں سے نکلنے کے بعد اسے اس سرحد پہ بہت زیادہ توجہ دینا ہوگی۔

ماضی میں برطانوی خبر رساں ایجنسی سے وابستہ رہ چکنے والی صحافی مائرہ میک ڈونلڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت نہ ہونے سے کہیں بہتر بات چیت کا ہونا ہے اور زیادہ بہتر ہے کہ اس سارے سلسلے کو خاموشی سے کیا جائے۔

22 مارچ 2021 کو عالمی جریدے بلوم برگ نے خبر دی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے متحدہ عرب امارات ایک خفیہ روڈ میپ پر کام کر رہا ہے۔

بلومبرگ نے بتایا تھا کہ گزشتہ مہینے دونوں ممالک کی افواج کی جانب سے 2003 کے جنگ بندی کے  معاہدے پر عمل درآمد کے اچانک سامنے آنے والے مشترکہ اعلان نے سب کو حیران کردیا تھا اورپھر اس کے 24 گھنٹے کے بعد امارات کے وزیر خارجہ نے دہلی کا دورہ بھی کیا تھا۔

بلوم برگ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ان رابطوں سے آگاہ سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دونوں ممالک میں فائر بندی کے لیے متحدہ عرب امارات نے ایک ماہ سے درپردہ کوششیں شروع کردی تھیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ افواج کی جانب سے فائر بندی کا معاہدہ دونوں ممالک کے مابین دیرپا امن کے قیام کے روڈ میپ کا آغاز ہے۔

جریدے کے مطابق دونوں ممالک کے مابین بہتر تعلقات کے لیے اگلا مرحلہ سفیروں کو واپس بھیجنے کا اقدام ہوسکتا ہے۔

2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا۔

سفارتی حکام کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف پائے جانے والے جذباتی ماحول ہے جس میں سفیروں کو واپس بھیجنے سے بڑھ کر کسی کامیابی کی فی الحال توقع نہیں کی جاسکتی۔

پاک بھارت کرکٹ سیریز کا امکان

بلوم برگ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کی یہ حالیہ کوشش ماضی کے مقابلے میں اس لیے مختلف ہے کہ امریکہ میں صدرجو بائیڈن کی حکومت افغانستان میں وسیع پیمانے پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے کیوں کہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کے ساتھ افغانستان میں بھی اپنا رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دونوں کے تعلقات میں بہتری ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں