تشدد کو روکنے کیلئے ضیا دور کی پالیسیوں کو ترک کرنا ہو گا، بلاول

وزیراعظم صاحب! ڈنڈے سے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا، بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں تشدد کی سخت مذمت کی ہے اور جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

اپنے بیان میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ خون بہانا اور تشدد پر اکسانا کبھی بھی صورتحال کو بہتر نہیں کر سکتا۔ ضیا دور کی پالیسیوں کو ترک کرنا ہو گا، نظام کو تباہ کرنے کیلئے پرانا طریقہ کار دہرایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ناکامی سے عوام اور ریاست خطرے کا شکار ہیں، کسی بھی صورتحال میں قانون کی عملداری قائم رہنی چاہیے، تمام معاملات آئینی طریقہ کار کے مطابق حل کیے جائیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مسلم ممالک کے ساتھ سے مل کر گستاخی کیخلاف دنیا بھر میں مہم چلانے کا اعلان۔

قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مہم چلانا ہو گی، ذمہ داری لیتا ہوں مہم کو لیڈ کروں گا، تمام اسلامی ممالک مل کر گستاخی کرنے والے ممالک کا تجارتی بائیکاٹ کریں گے تو فرق پڑے گا، صرف پاکستان نہیں تمام مسلمان ممالک کو متفقہ مؤقف اپنانا ہو گا، وہ دن دور نہیں جب مغرب کو احساس ہو گا۔

مزید پڑھیں: کیا گارنٹی ہے فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے سے دوبارہ گستاخی نہیں ہوگی، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یورپ میں گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع ہونگے۔

قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا تو کوئی دوسرا یورپی ملک ایسا کرے گا۔ سفیر کو واپس بھیجنے سے فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیا گارنٹی ہے کہ سفیر کو واپس بھیجنے سے دوبارہ گستاخی نہیں ہوگی۔

وزیراعظم عمران خان  نے کہا کہ پچھلے ہفتے کے افسوسناک واقعات کے بعد قوم خطاب کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ شان رسالت ﷺ میں گستاخی سے تمام مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ جو کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا مقصد ہے وہی میرا مقصد ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی نہ ہو۔ ٹی ایل پی اور ہمارے طریقے کار میں فرق ہے۔ ٹی ایل پی کہہ رہی ہے کہ فرانس سے رابطے ختم کیے جائیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغرب میں کچھ عرصے بعد یہی سلسلہ پھر شروع ہوجاتا ہے۔ ہر بار مظاہرے ہوتے ہیں لیکن کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیا فرانس کے سفیر کے واپس بھجوانے سے یہ سلسلہ رک جائے گا۔ میں مغرب کو جانتا ہوں وہ بار باراظہار رائے کے نام پر یہی کرینگے۔


متعلقہ خبریں