قاضی فائزعیسی کیس: ججز کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی

6 ججز کے خط

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسی کیس کے بینچ میں شریک ججز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ہے۔

جسٹس مقبول باقر جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

جسٹس منیب اختر نے عامر رحمان صاحب ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ مقبول باقر نے کہا آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا عامر رحمان صاحب دلائل کو مختصر رکھیں۔  جسٹس مقبول باقر نے کہا میں 50 بار کہہ چکا کیس جلد ختم کریں۔ ہم دوسری سائیڈ کو بھی وقت کم ہونے کا کہہ چکے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ کیا بات ہوئی کہ سینئر کا احترام نہیں۔

کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے، کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے۔ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے عدالتی وقار کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔

منیب اخترنے کہا میں سوال پوچھنا چا رہا ہوں۔ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ہدایت کی کہ آپ پورا عدالتی فیصلہ پڑھنے کے بجائے متعلقہ لائن پڑھیں۔

دوران سماعت جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ میں بھی تلخی کلامی ہوئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے عتراض اٹھایا کہ عامر رحمان کو غیر ضروری وقت دیا جا رہا ہے۔ عامر رحمان کیلئے یا وقت مقرر کریں یا دلائل پورے کرنے دیں۔

انہوں نے کہا بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاوں گا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔

سپریم کورٹ نے ججز کے درمیان تلخی پر سماعت کے دوران دس منٹ کا وقفہ کیا گیا اور بعد میں سماعت پھر شروع ہوئی۔

وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی توجسٹس عمرعطابندیال نے کہا جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے۔ روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لیکر آئے ہیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں۔

عامر رحمان نے کہا جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا آپکی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔


متعلقہ خبریں