پاکستان میں نظریاتی سیاست اور نظریہ ضرورت


اسلام آباد: پاکستان میں انتخابات قریب آتے ہی ملکی سیاست میں ایک بار پھرجوڑ توڑ کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سیاسی جماعتیں عام انتخابات سے قبل ہر مرتبہ ایک نیا نعرہ متعارف کرواتی ہیں جس کی بدولت ’نظریاتی سیاست‘ کے بجائے’ نظریہ ضرورت‘ پروان چڑھ رہا ہے۔

’ہم نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رہنما حسین نقی نے کہا کہ ابھی تک ایسی سیاسی پارٹیاں سامنے نہیں آئیں جن کا وجود جمہوری ہو۔ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ سیاست عالمی سطح پر تنزلی کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔

سیاسی ناقدین کے مطابق  پیپلز پارٹی کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر ہوتی تھی جو اب ٹوٹ چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن)  نے ایسی زنجیر بننے کی کبھی کوشش نہیں کی جو چاروں صوبوں کو جوڑسکے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ  پی ٹی آئی نے تو کوئی نظریہ اپنانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی پیپلز پارٹی ’سوشلسٹ‘ سے’اسلامی سوشلسٹ ‘ہوئی تھی، اب اس کی قیادت خود کو فخر سے  ’ترقی پسند‘ کہتی ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ترقی پسندی اور سوشلزم دو مختلف نظریات ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست بے معنی ہوچکی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے وہی لوگ کامیاب ہو رہے ہیں جو عوام کی فوری ضروریات حل کرنے کے اہل ہوں۔

انتخابی ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ الیکشن 2018 میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد ایک بار پھر منتخب ہو گی اوریہ سب کسی ایک کی حمایت کردیں گے۔

مبصرین کے مطابق اگرکوئی جمہوری پارٹی حکومت میں آتی ہے تو اسےآئین پاکستان کی روح کے مطابق عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا ہوں گے۔

انتخاب کے قریب جوڑ توڑ کا کھیل کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کی ’بساط‘ پر’پیادوں‘ کی تبدیل ہوتی وفاداریاں پاکستان کو بہتر مستقبل فراہم کرسکتی ہیں؟


متعلقہ خبریں