موبائل ٹیکس مقدمہ: تقابلی جائزہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل کارڈ پر ٹیکس کٹوتی کے مقدمہ میں حکم دیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں لاگو ٹیکس کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے۔

منگل کو مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایف بی آر اور صوبوں کو حکم دیا کہ وہ موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے معاملے پر ایک ہفتے میں جواب جمع کرائیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریماکس دیے کہ وزیرخزانہ کو بلا کر پوچھا جائے کہ 14 کروڑ صارفین سے روزانہ یہ ٹیکس کیوں لیا جارہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 100 روپے کے موبائل کارڈ پر 19.5 فیصد سیلز ٹیکس، 12.7 فیصد ودہولڈنگ ڈیوٹی اور 10 روپے سروس چارجز عائد کر رکھے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کیسے وصول کیا جارہا ہے؟ ایسے لوگوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کیوں لگایا جارہا ہے جو ٹیکس دینے کے اہل نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور سفارت کاروں سے اس مد میں ود ہولڈنگ ٹیکس (کٹوتی ٹیکس) نہیں لیا جاتا۔

چیف جسٹس کے استفسار پر ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ موبائل کارڈز پر سیلز ٹیکس صوبے وصول کر رہے ہیں۔

عدالت عظمی کے چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کس قانون کے تحت سیلز ٹیکس لگار ہے ہیں۔ کیا یہ ڈبل ٹیکس لگانا استحصال نہیں ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والے کیسے ٹیکس کی رقم واپس لیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سروس چارجز کی مد میں 42 فیصد رقم کس مد میں وصول کی جا رہی ہے۔ یہ تو عوام سے پیسے نکلوانے کا غیر قانونی طریقہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سروس چارجز لاگو کرنے کا سبب ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں بتا سکتی ہیں۔

عدالت نے مقدمہ کی  سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں