این ڈی ایم اے کے پاس اربوں روپے آرہے ہیں کچھ پتہ نہیں رقم کہاں لگ رہی؟ چیف جسٹس


چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سارے معاملات میں گڑ بڑ ہے، این ڈی ایم اے کے پاس اربوں روپے آرہے ہیں کچھ پتہ نہیں رقم کہاں لگ رہی ہے؟

کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت دوران چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے کہاں ہیں؟

چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے عدالت کو بتایا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل چارج سنبھالا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں نہیں معلوم آپ نے چارج کب لیا؟ ہر چیز میں این ڈی ایم اے کا ذکر ہے۔ چار پانچ مرتبہ آرڈر دیا تو کچھ دستاویزات دی گئیں۔ اب ان دستاویزات کا بھی معلوم نہیں یہ کیا ہیں۔

چیف جسٹس چیئرمین این ڈی ایم اے سے سوال کیا کہ کیا آپ نے کراچی کے حاجی کیمپ والے قرنطینہ سینٹر کا دورہ کیا؟ وہاں پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے لیکن وہاں پانی اور واش روم کی سہولت نہیں ہے۔ رپورٹ کی صورت میں دستاویز دیا جاتا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ آپ ذاتی حیثیت میں تمام قرنطینہ سینٹرز کا دورہ کریں اور تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کمپنی سے این 95 ماسک کی فیکٹری لگوائی گئی۔ فیکٹری کیلئے ساری مشینری اور ڈیوٹیز کی ادائیگی نقد کی گئی۔ چارٹرڈ جہاز کے ذریعے مشینری منگوائی اس کی ادائیگی بھی نقد ہوئی۔ چین میں پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے کیوں خریداری کی گئی؟۔ کیا چین میں پاکستانی سفارتخانہ خریداری کیلئے استعمال ہوتی ہے؟

مزید پڑھیں: ڈریپ کی جانب سے روسی کورونا ویکسین کی فروخت روکنے کی استدعا مسترد

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چارٹرڈ جہاز بھی سفارتخانے کے ذریعے ہی کروایا گیا۔ کیا چین میں پاکستانی سفیر خریداری ہی کرتے ہیں یا ڈپلومیٹک کام بھی؟

سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ڈریپ اور این ڈی ایم اے کی رپورٹس جمع کرا دی گئیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 30 اپریل کو حکومت نے غیر رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کا این او سی جاری کیا۔غیر رجسٹرڈ آلات اور ادویات کو امپورٹ کی اجازت کیوں دی ہے؟ حکومت کو کیسے معلوم ہوگا کہ کونسی چیز منگوائی جا رہی ہے؟  کیا کوئی تحقیقات کی ہیں کہ ادویات آخر کیوں منگوائی جا رہی ہیں؟

ڈریپ حکام  نے عدالت کو بتایا کہ وینٹی لیٹرز سمیت کئی آلات ملک میں تیار ہو رہے ہیں۔ ملک میں کورونا سے متعلق کسی بھی دوائی کی قلت نہیں۔ ایکٹمرا انجکشن کے علاوہ کئی ادویات کا کئی ماہ کا اسٹاک موجود ہے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ایکٹمرا انجکشن کے حوالے سے منفی رپورٹس ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سے آکسیجن کی بڑی مقدار مل سکتی ہے۔ اسٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو فعال کیا جا سکتا ہے۔

 

 


متعلقہ خبریں