‏راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل،معاون خصوصی ذوالفقار بخاری مستعفی

ہنرمند افرادی قوت برآمد کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، زلفی بخاری

فوٹو: فائل


راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں الزامات کی وجہ سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ الزامات سے بری ہونے تک عہدے سے مستعفیٰ رہوں گا، اس منصوبے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان میں ہی رہوں گا ہرقسم کی تحقیقات کےلیے تیار ہوں، وزیراعظم کے ویژن کے مطابق مثال قائم کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کے ویژن اور نظریے کے ساتھ کھڑا ہوں۔

چیئرمین نیب کا راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ بےضابطگی کی تحقیقات کا حکم

خیال رہے کہ  قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ر جاوید اقبال نے آج راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ بےضابطگی کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی تحقیقات بلاامتیاز اور قانون کےمطابق مکمل کی جائیں۔

انہوں نے ہدایت کی رنگ روڈ منصوبے کے تمام پہلووَں کاجائزہ لیتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور انہیں قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

یاد رہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل انکوائری مکمل کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ رنگ روڈ کے اصل نقشے کو تبدیل کر دیا گیا اور اس میں مزید نئے راستے شامل کردیے گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نئے راستوں کا انتخاب ان چند اہم شخصیات کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا، جن کی زمینیں اس راستے پر آتی تھیں جبکہ نئے راستے شامل کرنے پرلاگت میں مزید 25 ارب روپے اضافہ ہو رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق اطلاعات ملی تھیں کہ منصوبے کی لاگت میں 25 ارب روپے اضافہ کیا گیا،کچھ بااثر سیاستدانوں اور مفادپرست گروہوں کے کہنے پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ دینے کیلئے حدبندی تبدیل کی گئی۔

85 کلومیٹر طویل راولپنڈی رنگ روڈ کی تعمیر پر ابتدائی تخمینہ 40 ارب روپے تھا۔

راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل سامنے آنے پر کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کے سربراہ کمشنر گلزار شاہ کے دستخط کے ساتھ رپورٹ حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔

رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود اور لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور دونوں کا کیس نیب بھجوانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں، دونوں افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی لینڈ ایکوزیشن پر 2 ارب 30 کروڑ روپے تقسیم کیے، اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اٹک لوپ کے رینٹ سینڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی۔


متعلقہ خبریں