ڈریس کوڈ: لڑکیوں کی تصاویر میں تبدیلیاں، امریکی اسکول انتظامیہ کو تنقید کا سامنا

ڈریس کوڈ: لڑکیوں کی تصاویر میں تبدیلیاں، امریکی اسکول انتظامیہ کو تنقید کا سامنا

امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک ہائی اسکول کو شدید تنقید کا سامنا ہے کہ اس نے اپنے سالانہ میگزین میں 80 لڑکیوں کی تصاویر میں تبدیلیاں کر کے ان کے سینے اور کندھے کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق منتظمین نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ تصاویر میں تبدیلیاں اس لیے کی گئی تھیں کہ لڑکیوں کا لباس اسکول کے طلبا کے لباس کے بارے میں قواعد کے مطابق نظر آئے۔ اسکول میں خواتین کے لباس کے قواعد کے مطابق ان کی لباس کو ‘اخلاقی’ ہونا چاہیے۔

لیکن نقادوں کا کہنا ہے کہ اس سالانہ میگزین میں لڑکوں کے تصاویر میں کوئی ترامیم نہیں کی گئی حالانکہ ان کے لباس کا معیار بھی اسکول کے قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

طلبا کا کہنا ہے کہ تصاویر میں ڈیجیٹل تبدیلیاں ان کی اجازت کے بنا کی گئی ہیں۔

سینٹ جانز کوئنٹی اسکول ڈسٹرکٹ کا کہنا ہے کہ بارٹرام ٹریل ہائی اسکول کے سالانہ میگزین میں طالبات کی تصاویر میں تبدیلی کا فیصلہ جریدے کی خاتون کو آرڈینیٹر نے یہ دیکھ کر کیا کہ یہ لباس اسکول کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

سینٹ جونز کاؤنٹی میں واقع بارٹرام ٹریل ہائی اسکول کی ویب سائٹ پر ایک پیغام کے ذریعے طلبا کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اسکول کے ڈریس کوڈ سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث ان کی سالانہ میگزین کی تصاویر کو ڈیجیٹل طور پر بدلا جاسکتا ہے۔

تاہم چند طلبا نے تصاویر میں تبدیلیوں کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے اسکول پر صنف کی بنیاد پر امتیاز برتنے کا الزام لگایا ہے۔

بارٹرام ٹریل ہائی اسکول کی ایک 15 سالہ طالبہ ریلی او کیفی نے مقامی نیوز ادارے ڈبلیو جیکس کو بتایا کہ ‘اسکول کی سالانہ جریدے کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کی تصاویر میں دہرے معیار کو اپنایا گیا ہے، انھوں نے ہمارے جسم کا کچھ حصہ دیکھا اور یہ سوچ لیا کہ جسم کا تھوڑا سے دکھاوا جنسی ہے۔ لیکن انھیں لڑکوں کی تیراکی کے لباس میں تصاویر یا دیگر کھیلوں کے لباس میں تصاویر سے کوئی مسئلہ نہیں اور یہ واقعتاً مایوس کن اور پریشان کرنے والی بات ہے۔‘

اسکول کی جانب سے ڈبلیو جیکس نیوز کو دیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسکول کی پہلی پالیسی یہ تھی کہ جو تصاویر اسکول کے ڈریس کوڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں انھیں سالانہ میگزین سے نکال دیا جاتا تھا، اس برس انھیں ڈیجیٹل طور پر اس لیے تبدیل کیا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تمام طلبا کی تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔

جیکسن ویل کے قریب 2500 طلبا والے اس سرکاری اسکول نے تنقید کے بعد کہا ہے کہ وہ تصاویر میں تبدیلیوں سے پریشان ہونے والے والدین کو سالانہ جریدے کی قیمت میں سے سو ڈالر واپس ادا کرے گا۔

اسکول کے قواعد و ضوابط میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کا لباس ‘لازمی طور پر ان کے کندھوں کو ڈھانپتا ہو’ اور لازمی طور پر اخلاقی ہو اور اس میں جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا ہو۔’ سکول میں غیر ضروری یا زیادہ میک اپ کر کے آنے کی اجازت نہیں ہے اور اسکول میں ‘انتہائی ہیر سٹائلز’ بنا کر آنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔’

ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے مطابق اسکولوں میں لڑکیوں کے ڈریس کوڈ سے متعلق قواعد پر عملدرآمد مخلتف سکولوں میں مختلف ہیں۔ بارٹرام ٹریل اسکول کے ان اصولوں کے اطلاق سے اس سال کے شروع میں بھی اس وقت تنازعہ کھڑا ہوا تھا جب 31 طلبا کو ایک ہی دن میں ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر سزا ہوئی تھی۔

پندرہ، 16 سال کی متعدد طالبات نے کہا ہے کہ اس وقت انھیں اساتذہ اور دیگر طلبہ کے سامنے اپنے سویٹر اور جیکٹس کو کھولنے کا کہا گیا تھا تاکہ وہ اس کے نیچے اپنی براز اور ٹینک ٹاپس دکھائیں۔

اس کے جواب میں، طالب علم ریلی نے ایک آن لائن پٹیشن تیار کی جس میں ڈریس کوڈ میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی۔ اس درخواست میں اس کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈریس کوڈ واضح طور پر نوجوان خواتین کو صرف سیکس کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔‘

مزید پڑھیں: پی سی بی کی فرنچائز مالکان کو ڈریسنگ روم میں رہنے کی اجازت

اسکولو ں میں لڑکیوں کے ڈریس کوڈ کو ایک بار پھر شہہ سرخیوں میں لاتے ہوئے اس آن لائن پٹیشن پر اب 5000 سے زیادہ افراد نے دستخط کیے ہیں۔ امریکہ میں اسکولوں میں لڑکیوں کے ڈریس کوڈ حالیہ برسوں میں تنقید کی زد میں رہے ہیں، ان کے حوالے سے کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو باڈی شیم کرتے ہیں۔

سنہ 2018 میں واشنگٹن، ڈی سی میں نیشنل ویمن لاء سینٹر کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سیاہ فام لڑکیوں اور طالب علموں کو غیر ضروری طور نشانہ بنایا گیا تھا۔

طالبہ ریلی کی والدہ سٹیفنی فبرے نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس مسئلہ نے اس طرف توجہ مبذول کروائی جو کبھی مسئلہ تھا ہی نہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘کسی نے بھی اس میگزین کو یا ان تصاویر کو اس طرح نہیں دیکھنا تھا یا اس نے بارے میں ایسا سوچنا تھا ماسوائے اس کے کہ یہ نویں جماعت کے بچوں کی خوبصورت تصاویر ہیں۔’

‘تصاویر میں ان تبدیلیوں نے ان میں سے کچھ لڑکیوں کے لیے جذباتی تناؤ اور تمسخر کی صورتحال پیدا کر دی کیونکہ ان کی تصاویر کو بہت ہی برے طریقے سے فوٹو شاپ کیا گیا تھا اور ان کی تصاویر کو میمز کے طور پر اور سنیپ چیٹ پر پھیلایا جا رہا ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لڑکیوں میں سے چند کے خاندان اسکول سے معافی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اصل تصاویر کے ساتھ میگزین دوبارہ شائع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لیکن تمام والدین ان قواعد کے خلاف نہیں ہیں۔ بارٹرام ٹریل میں پڑھنے والی ایک اور طالبہ کی والدہ ریچل نے ڈبلیو جیکس نیوز کو بتایا کہ وہ تصاویر میں ان تبدیلیوں کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر گھر میں والدین بچیوں کو نہیں بتائیں گے کہ کیسا لباس پہننا ہے اور اخلاقی لباس کیا ہے تو سکول کو بتانا پڑے گا۔’


متعلقہ خبریں