انٹرپول کا انتباہ بیکارگیا: خطرناک کیمیکلز سے لدا بحری جہاز بھارت سے پاکستان پہنچ گیا

انٹرپول کا انتباہ بیکار گیا: خطرناک کیمیکلز سے لدابحری جہاز بھارت سے پاکستان پہنچ گیا

اسلام آباد: بھارت سے ایک ایسا ناکارہ بحری جہاز ملک کی سمندری حدود میں داخل ہو کر لنگر انداز ہوا ہے جس پر انتہائی مضر صحت کیمیکلز سے لدا ہوا ہے اور جس کے متعلق پاکستانی حکام کو انٹرپول نے باقاعدہ انتباہ بھی جاری کیا تھا۔

امریکی بحری جہاز کا گشت: بھارت کے تحفظات

30 اپریل کو لسبیلہ کے ساحلی شہر گڈانی پہنچنے والے ناکارہ بحری جہاز کے متعلق ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اسٹوریز کے بعد انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جہاز کے توڑنے کے کام پر پابندی عائد کردی ہے اور اس جگہ کو باقاعدہ سیل بھی کیا ہے جہاں یہ جہاز لنگر انداز ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اس ضمن میں کہا ہے کہ گڈانی شپ یارڈ میں کیمیائی مواد سے بھرے جہاز کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کردی ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ جہاز کے لنگر انداز ہونے کا حکومت اور انتظامیہ کو کوئی علم نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قائم کردہ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ خطرناک کیمیکل سے لدا ہوا بحری جہاز کو لنگرانداز ہونے کی اجازت کس نے دی؟

ایف ایس اوریڈینٹ نامی ناکارہ بحری جہاز کو بھارت اور بنگلہ دیش نے داخلے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ اس پر مرکری سمیت 1500 ٹن دیگر خطرناک اور زہریلا مواد موجود تھا جو انسانی صحت، آبی حیات اور ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

خلیجی اخبار کے مطاق انٹرپول نے 22 اپریل کو ایک ای میل کے ذریعے جہاز میں خطرناک مادے کی موجودگی اور پاکستان روانگی سے متعلق پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو باقاعدہ طور پر خبردار کیا تھا۔

اخبار کے مطابق انٹرپول کی اطلاع کے بعد پاکستان کے سرکاری اداروں کے درمیان خطوط کا تبادلہ جاری تھا کہ اس دوران ناکارہ بحری جہاز پاکستان پہنچ گیا۔

انڈونیشیا کی نٹونا گیس فیلڈ کے لیے کام کرنے والا یہ جہاز 38 سال پرانا ہے اور اپنی عمر پوری کرنے بعد اسکریپ کرنے کے لیے گذشتہ سال مئی میں انڈونیشیا سے بنگلہ دیش آیا تھا لیکن جہاز پر خطرناک مواد کی موجودگی اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے اداروں کے احتجاج کی وجہ سے بنگلہ دیش نے اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد یہ جہاز نومبر 2020 میں بھارتی شہر ممبئی لے جایا گیا مگر وہاں بھی انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر اسے توڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

خلیجی اخبار کے مطابق بعد میں جہاز کا نام ایف ایس اوریڈینٹ سے بدل کر چیریش رکھ دیا گیا اور دیوان شپ ری سائیکلنگ نامی پاکستانی کمپنی نے اسے پاکستان امپورٹ کیا۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق متعلقہ اداروں کی اجازت سے پہلے ہی گڈانی کے ساحل پر موجود جہاز کا نال کاٹنے اور اس سے خطرناک کیمیائی مواد اتارنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔ مزدور مرکری ملا ہوا تیل جہاز سے اتار کر ڈرموں میں بھر رہے تھے۔

انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان(ای پی اے) کے لسبیلہ میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر عمران سعید کاکڑ نے خلیجی اخبار کو بتایا کہ جہاز کو توڑنے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا اور صرف ساحل پر جہاز کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس کے نال کو کاٹ کر باندھنے کی اجازت دی گئی تھی جو ساحل پر پہنچنے والے ہر جہاز کو دی جاتی ہے۔

پاکستان کی وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے 18 مئی کو ای پی اے کو کارروائی کے لیے خط لکھا تھا مگر ایک ہفتے بعد بھی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے اس وقت تک کارروائی نہیں کی جب تک میڈیا میں ساری صورتحال سامنے نہیں آگئی۔

اخبار کے مطابق کارروائی میں تاخیر سے متعلق سوال پر انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران سعید کاکڑ نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ این سی او سی کے فیصلے کے تحت 8 مئی سے 16 مئی تک بند رہا اس لیے نہ تو جہاز کا انسپکشن کیا گیا اور نہ ہی اسے کوئی این او سی جاری کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ منگل کو جہاز پر خطرناک مواد کی موجودگی کی اطلاع پر گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر 58 (جہاں جہاز لنگر انداز ہے) کو سیل کردیا گیا ہے۔

بڑی تعداد میں مردہ جیلی فش گڈانی کے ساحل پر آ گئیں

انہوں نے بتایا کہ ای پی اے کی ٹیم نے جہاز میں موجود فضلے سے نمونے لے کر ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بجھوا دیے ہیں۔

عمران سعید کاکڑ کا جہاز پر خطرناک مواد کے حوالے سے کہنا تھا کہ اگر جہاز پر موجود مواد میں مرکری کی مقدار 200 مائیکرو گرام فی کلو گرام یا اس سے زائد پائی گئی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انٹرپول کی جانب سےپاکستانی حکام کو بجھوائے گئے خط میں بنگلہ دیشی ادارے کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیشی رپورٹ کے مطابق جہاز پر موجود مواد میں مرکری کی مقدار ایک کلو گرام میں 395 مائیکرو گرام پائی گئی جو متعین کردہ حد سے دگنی ہے۔

ماہر ماحولیات اورسابق ڈائریکٹر انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان محمد خان کے مطابق گڈانی میں اسکریپ کے لئے لائے جانے والے بحری جہازوں پر موجود فضلے میں مرکری، کرومیئم، آرسینک، کیڈمیئم اور لیڈ سمیت دیگر خطرناک کیمیکل موجود ہوتا ہے مگر ان سب میں مرکری یا پارہ سب سے خطرناک ہے کیونکہ یہ پانی میں بھی حل نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ انسانی دماغ، پھیپھڑوں اور جلد سمیت دیگر اعضا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس کے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں، جانوروں اور آبی حیات پر بھی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی بحری جہاز میں مرکری کی مقدار موجود ہوں تو جہاز کے پرزے الگ کرنے والے مزدوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ حسن وقار چیمہ نے اس حوالے سے خلیجی اخبار کو بتایا کہ  لنگر انداز ہونے کے ساتھ ہی کمپنی سے جہاز کے کیمیکل اور خطرناک مادوں سے پاک ہونے کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جہاز کا معائنہ اور کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ خطرناک مواد سے بھرا جہاز کس طرح گڈانی پہنچا؟ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرکے متعلقہ اداروں سے رپورٹس بھی طلب کرلی ہیں۔

اخبار کے مطابق ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ کمپنی کی ورکنگ سائٹ کو اتنے دنوں بعد کیوں سیل کیا گیا؟ اس سمیت دیگر کئی سوالات کے جوابات بھی تحقیقات کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اردو نیوز کے مطابق پاکستان شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری محمد عمیر عیسانی کا کہنا ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے ہمیں تاخیر سے اطلاع دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جہاز ہمیں خط ملنے سے پہلے ہی گڈانی پہنچ چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 19 مئی کو خط ملنے کے فوری بعد ہم نے مراسلے کے ذریعے اپنے ارکان کو مذکورہ جہاز میں خطرناک مواد کی موجودگی کی اطلاع دی بلکہ انہیں اس جہاز سے متعلق کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے سے روک دیا۔

گوادر کے ساحل پر سینڈ آرٹ مقابلے کا انعقاد

دیوان شپ ری سائیکلنگ بریکنگ کمپنی کے لیے ممبئی سے جہاز خریدنے والے ایجنٹ جاوید اقبال نے بتایا کہ ممبئی سے کرائے گئے ٹیسٹ میں جہاز میں مرکری کی مقدار متعین کردہ حدود سے کم پائی گئی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ  ہم قانونی تقاضے پورے کر کے ہی جہاز پاکستان لائے ہیں۔


متعلقہ خبریں