ایران کے صدارتی انتخابات: سب سے مضبوط امیدوار کون؟


ایران  میں جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے 7 صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے ہیں جبکہ درجنوں دیگر افراد کے کاغذات کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جن سات امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں ان میں سے 5 سخت گیر نظریات کے حامی ہیں۔

ابراہیم رئیسی

چند سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابراہیم رئیسی کے لیے منصب صدارت تک جانے کا راستہ صاف کیا گیا ہے۔

رئیسی ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں اور سخت گیر نظریات کے حامی ہیں۔ اس کے بارے میں غالب قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی بلکہ ممکنہ طور پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشین ہو سکتے ہیں۔

اُن کے ساتھ اس صدارتی انتخاب کی دوڑ میں کوئی دوسرا ایسا امیدوار نہیں جس کا اتنا اثر و رسوخ اور ایرانی معاشرے میں عزت ہو۔

انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ملک میں معاشی مشکلات کے باعث پیدا ہونے والی ’مایوسی اور ناامیدی‘ سے نمٹنے کے وعدوں کے ساتھ کیا۔

ابراہیم رئیسی کو ایران کے قدامت پسند حلقوں میں وسیع حمایت حاصل ہے اور توقع ہے کہ دوسرے بڑے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی نامنظور ہونے کے بعد ان کی منصب صدارت تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

ایران میں سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ابراہیم رئیسی نے عدلیہ کے شعبے کا انتخاب کیا تھا اور اپنے کریئر کے دوران وہ زیادہ تر وقت پراسیکیوٹر کے عہدے پر تعینات رہے تاہم اس دوران ان کے حوالے سے متعدد تنازعات بھی کھڑے ہوتے رہے۔

انھوں نے سنہ 1988 میں تہران کے اسلامی انقلاب کی عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے فرائض سرانجام دیے اور وہ سیاسی قیدیوں کو بڑے پیمانے پر پھانسی دینے والے ایک خصوصی کمیشن کا حصہ تھے۔

وہ مشہد میں اہل تشعیوں کے آٹھویں امام، امام رضا کے روضے آستانۂ قدسِ رضاوی کے نگران بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ماہرین کی اس طاقتور اسمبلی کے بھی رکن ہیں جو سپریم لیڈر کی تقرری اور انھیں ہٹانے کی ذمہ دار ہے۔

محسن رضائی

66 برس کے محسن رضائی سنہ 1981 میں پاسدران انقلاب کے کمانڈر مقرر ہوئے تھے اور 1980-88 کی ایران، عراق جنگ کے دوران انھوں نے پاسدران انقلاب سکیورٹی فورسز کی سربراہی کی۔

محسن رضائی نے تہران یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔

وہ تین بار صدر کی حیثیت میں الیکشن میں کھڑے ہو چکے ہیں اور وہ کبھی عوامی عہدے پر فائز نہیں ہوئے جبکہ سنہ 2000 میں وہ پارلیمنٹ میں منتخب ہونے کی کوشش میں بھی ناکام رہے تھے۔ انھیں ’بار بار الیکشن لڑنے والے امیدوار‘ کے طور پر بھی پکارا جاتا ہے۔

بہت سے لوگ ایران عراق جنگ کے دوران ان کے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے یہ فیصلے بہت سے فوجیوں کی ہلاکت اور طویل جنگ کی وجہ بنے تاہم محسن رضائی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

سعید جلیلی

سعید جلیلی سنہ 2007-2013 کے دوران ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور محمود احمدی نژاد کے دور صدارت میں وہ نائب وزیر خارجہ بھی رہے۔

سعید جلیلی پہلے بھی صدارتی دوڑ میں حصہ لے چکے ہیں اور سنہ 2013 کے صدارتی انتخاب کے نتائج میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔

چونکہ انھیں براہ راست سپریم لیڈر خامنہ ای نے ہر اس عہدے پر فائز کیا جس پر وہ ابھی کام کر رہے ہیں تو نوجوان قدامت پسندوں میں انھیں ’پرانے محافظ‘ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سعید جلیلی کو ان کی ’فکری آزادی اور کرپشن میں کمی‘ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

وہ ایکسپیڈینسی کونسل (Expediency Council) کے ممبر کی حیثیت سے بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جو کسی بھی تنازعے میں پارلیمان اور گارڈین کونسل کے مابین ثالثی کراتا ہے۔

وہ ماضی میں بھی صدارتی دوڑ میں حصہ لے چکے ہیں اور سنہ 2013 کے صدارتی انتخاب کے نتائج میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔

محسن مہرالی زادہ

محسن مہرالی زادہ اس الیکشن میں کھڑے ہونے والے واحد اصلاح پسند امیدوار ہیں تاہم وہ ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے یہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ان کا نام ریفارمز فرنٹ کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ ریفارمز فرنٹ، ریفارم کی حامی 27 سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا اتحاد ہے، جس کے نو امیدواروں کو گارڈین کونسل نے نا اہل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: روس اور ایران صدارتی انتخابات میں مداخلت کیلیے کوشاں، امریکی انٹیلیجنس

یہ واضح نہیں یہ کہ مہرالی زادہ کو اس انتخاب کے لیے دوسرے اصلاح پسندوں کے مقابلے میں زیادہ کیوں پسند کیا گیا تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای کی مداخلت کے بعد سنہ 2005 کے صدارتی انتخاب میں محسن مہرالی زادہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن پھر سنہ 2016 کے پارلیمانی انتخابات میں کھڑے ہونے پر بھی ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

عبدالناصر ہیماتی

محسن مہرالی زادے کے علاوہ عبدالناصر ہیماتی وہ واحد غیر قدامت پسند امیدوار ہیں جو اس بار صدارت کے امیدوار ہیں۔

وہ ایک اعتدال پسند ٹیکنوکریٹ ہیں جو سنہ 2018 سے ایران کے مرکزی بینک کے گورنر کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

صدر احمدی نژاد اور صدر روحانی کے دور حکومت میں نمایاں عہدوں پر ان کی تقرری کو ایران کے سیاسی دھڑوں کے مخالف ونگز کے ساتھ کام کرنے کی قابلیت کا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔

انھیں ایران کی کرنسی کی قدر میں شدید کمی، ایران کے بینکنگ سیکٹر پر امریکی پابندیوں، جس میں مرکزی بینک پر پابندیاں بھی شامل تھیں، غیر مستحکم سٹاک ایکسچینج اور ایران کی منافع بخش کریپٹوکرنسی مارکیٹ سمیت کئی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا۔

عبدالناصر ہیماتی نے تہران یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور وہ وہاں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت میں پڑھاتے بھی ہیں۔

محسن مہرالی زادے سنہ 2018 سے ایران کے مرکزی بینک کے گورنر کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

دیگر امیدوار

امیر حسین قاضی زادے ہاشمی ای این ٹی (ناک، کان، گلے) کے سرجن اور سخت گیر رکن پارلیمان ہیں جو سنہ 2008 سے مشہد کے حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

وہ مئی سنہ 2020 سے پہلے ڈپٹی سپیکر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی عمر 50 برس ہے اور وہ صدارتی دوڑ کے سب سے کم عمر امیدوار ہیں۔

علی رضا زکانی بھی ایک سخت گیر رکن پارلیمان ہیں جنھیں سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی شدید مخالفت کے لیے جانا جاتا ہے۔

وہ ایران عراق جنگ بھی لڑ چکے ہیں اور سنہ 2000 کی دہائی کے ابتدائی اوائل میں انھوں نے طالب علموں کی ملک گیر ’باسیج مزاحمتی فورس‘ کے کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جو داخلی سلامتی کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔

انھوں نے سنہ 2004 سے 2016 تک تہران کے رکن پارلیمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سنہ 2020 میں وہ دوبارہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ وہ تیسری بار صدارتی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں۔ انھیں گارڈین کونسل نے سنہ 2013 اور 2017 میں نا اہل کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ ایران میں صدارتی انتخابات کے لیے 18 جون کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں