قرضے لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا خطرناک ہے، چیف جسٹس

قرضے لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا خطرناک ہے، چیف جسٹس

فائل فوٹو


اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ قرضے لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا خطرناک ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا کے ملازم کی پنشن ادائیگی کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے فارسٹ گارڈ کی پنشن کی ادائیگی سے متعلق اپیل مسترد کر دی۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ پنشن کی ادائیگی کے دوران 4 سالہ ملازمت شامل نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا قاسم ودود سے مکالمے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ادارے تنخواہیں اور پنشن دینے کے قابل نہیں ہیں اور خیبر پختونخوا میں سرکاری اداروں میں لوگوں کو ملازمتوں پر لگا کر بھر دیا گیا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کی حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک سے قرضے لے رہی ہے اور یہ طریقہ خطرناک ہے کہ قرضہ لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی، وزیر اعظم

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخوا میں سرکاری نوکری کے علاوہ روزگار کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے صوبہ براہ راست فنڈز نہیں لے سکتا ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ خیبر پختونخواکی معیشت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کی بڑی وجہ اسمگلنگ ہے اس لیے خیبر پختونخوا میں انڈسٹری کو بڑھانے کے لیے اسمگلنگ روکنا ہو گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ خیبرپختونخوا اسمگلنگ میں ملوث عناصر کو ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات ضروری ہیں۔


متعلقہ خبریں