ٹرین کے بڑے حادثات سندھ میں کیوں ہوتے ہیں؟


پاکستان میں ٹرین کے جان لیوا اور بڑے حادثات ذیادہ تر سندھ کے علاقوں میں ہوئے۔ جن میں سیکڑوں جانیں چلی گئیں۔ اور کئی مسافر زخمی ہوئے۔

چار جنوری1990 میں پنوں عاقل کے قریب ٹرین حادثہ تین سو پچاس افراد کی جانیں لے گیا۔ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی میں ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ جس میں134 افراد جاں بحق ہوئے۔

اٹھائیس فروری دو ہزار بیس کو سندھ کے شہر روہڑی میں کراچی سے لاہور جانے والی پاکستان ایکسپریس اور ایک بس کے درمیان تصادم میں کم از کم 22 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

31 اکتوبر 2019 میں رحیم یار خان کے قریب  بوگی میں آگ لگنے سے 74 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ آگ کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس کی تین بوگیوں میں لگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بوگی کا کلمپ ٹوٹا ہوا تھا،مرمت کی بجائے جگاڑ کیا گیا

دو جولائی دو ہزار بیس شیخوپورہ کے نزدیک مسافر ٹرین اور بس کے درمیان تصادم میں کم از کم 22 افراد جان سے گئے۔ ٹرین حادثہ فاروق آباد اور بحالی ریلوے اسٹیشن کے درمیان بغیر پھاٹک والی ریلوے کراسنگ پر پیش آیا۔

11 جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب حادثے میں کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس ایک مال گاڑی سے ٹکرائی اور اس حادثے میں چوبیس مسافر جاں بحق جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

تین نومبر 2016 کو کراچی میں دو مسافر ٹرینوں کے تصادم کے نتیجے میں 21 افراد جاں بحق جبکہ 60 زخمی ہو گئے تھے۔

سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ روہڑی گھوٹکی ریلوے لائن بہت زیادہ خراب ہے اس کا حل ایم ایل ون ہے۔

انہوں نے کہا مجھے امید ہے وزیر ریلوے ایم ایل ون پر کام کررہے ہوں گے۔ جو ٹریکس زیادہ خراب ہیں کم ازکم  انہیں تو ٹھیک کرنا چاہئے۔


متعلقہ خبریں