اسرائیل: فلسطینی شریک حیات کو الگ رکھنے کے قانون کی تجدید

اسرائیل: فلسطینی شریک حیات کو الگ رکھنے کے قانون کی تجدید

تل ابیب: اسرائیلی پارلیمنٹ آج اس قانون کی تجدید کے لیے ووٹنگ کررہی ہے جو اسرائیل کے عرب شہریوں کو مغربی کنارے اور غزہ سے تعلق رکھنے والے اپنے شریک حیات کی شہریت بلکہ ان کی اسرائیل میں رہائش کی ہی مخالفت کرتا ہے۔ یہ قانون 2003 میں نافذ کیا گیا تھا۔

اسرائیل کے تجارتی کارگو جہاز پر بحرہند میں حملہ

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کی شہریت اور داخلے کا قانون 2003 میں اس وقت عارضی اقدام کے طور پر نافذ کیا گیا تھا جب بغاوت اپنے عروج پر تھی اور اسرائیل پر کافی شدید حملے کیے گئے تھے۔

اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطیوں کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک کے عزائم رکھتے ہیں اس لیے صرف سکیورٹی کی نگرانی ناکافی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ناقدین اور عرب قانون دانوں نے اس قانون کو نسل پرستی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے جو اسرائیل کی عرب اقلیت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی نقطہ نظر سے اور اسرائیل کی صہیونی شناخت کو بچانے کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیل کی دائیں بازو کی نمایاں سیاسی جماعتیں اس قانون کی تجدید کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔

اسرائیل کی نئی حکومت میں اس قانون کے ناقدین بھی شامل ہیں جب کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی حزب مخالف کے سربراہ سابق وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اس قانون کی تجدید کے لیے ووٹ نہ دے کر حکومت کو مشکل میں ڈالیں گے۔

ایران کے ایٹمی راز کیسے چرائے؟ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے بتا دیا

خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ قانونی ماہر یووال شینی کا کہنا ہے کہ یہ قانون انتفادہ کے دوران منظور کیا گیا تھا لیکن آج ہم ایک بالکل مختلف دور میں جی رہے ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ اب نہ صرف یہ کہ حملے کم ہو گئے ہیں بلکہ اسرائیل نے یہاں آنے والے فلسطینیوں کی نگرانی کے لیے درکار تکنیکی صلاحیتوں میں بھی کافی بہتری کی ہے۔

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس قانون کی وجہ سے ہزاروں عرب شہریوں پر اثر پڑے گا۔ اس وقت 35 سال سے زیادہ عمر کا مرد (شریک حیات) اور 25 برس سے زیادہ عمر کی خاتون (شریک حیات) اور بعض مخصوص حالات میں فلطسینی شہریوں کو اسرائیل میں سیاحتی اجازت نامے سے ملتی جلتی سہولت کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہے لیکن اس اجازت نامے کے باوجود یہ لوگ ڈرائیونگ لائسنس، پبلک ہیلتھ انشورنس اور بیشتر جگہوں پر نوکری حاصل کرنے کے لیے اہل نہیں ہیں جب کہ غزہ سے تعلق رکھنے والے (مرد یا خاتون) شریک حیات کے اسرائیل میں داخلے پر 2007 سے پابندی عائد ہے۔

یہ قانون ان پانچ لاکھ یہودی آباد کاروں پر قابل نفاذ نہیں ہے جو مغربی کنارے میں رہتے ہیں اور انہیں اسرائیل کی مکمل شہریت حاصل ہے۔

بیت المقدس: اسرائیلی فورسز کی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلیے آنیوالوں پر فائرنگ

اسرائیل کے لاء آف ریٹرن کے تحت دنیا میں کہیں سے بھی کوئی یہودی باشندہ اسرائیل واپس آئے گا تو اسے مکمل شہریت دی جائے گی۔


متعلقہ خبریں