غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں زندگی کیسی ہو گی؟

امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں زندگی کیسی ہو گی؟

افغانستان میں جاری جنگ کے 20 سال گزرنے کے بعد امریکی اور نیٹو افواج اب ملک چھوڑ رہی ہیں لیکن ان کے جانے کے بعد سے طالبان نے ملک بھر کے مختلف حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

لیکن دو دہائی سے جاری اس جنگ نے افغانستان کو کتنا بدل دیا ہے اور مستقبل میں یہاں کیا ہو گا، اس بارے میں ہم نے چند سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

کیا طالبان واپس آ گئے ہیں؟

افغان طالبان نے 1996 میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اور اگلے پانچ برس تک ملک پر ان کی حکمرانی قائم رہی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو شکست دے دی۔ اس کے بعد ملک میں جمہوری نظام کے تحت انتخابات ہوئے اور نیا آئین بنایا گیا لیکن طالبان شکست کے باوجود ختم نہ کیے جا سکے اور وہ مسلسل چھوٹے پیمانے پر جھڑپیں اور حملے کرتے رہے، جس نے افغان، امریکی اور نیٹو افواج کو مصروف رکھا۔

لیکن اب جبکہ امریکی افواج ملک سے جا رہی ہیں تو طالبان نے دوبارہ اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں اور جگہ جگہ ‘شریعت’ کا نظام لاگو کرنا شروع کر دیا ہے۔

بی بی سی افغان سروس نے ملک کے مختلف حصوں میں 19 جولائی تک کی صورتحال کی تصدیق کی تاکہ یہ جان سکیں کہ ملک کے کس کس حصے پر حکومت کا قبضہ ہے اور کہا پر طالبان کا۔

امریکی اور ناٹو افواج کے جانے کے بعد طالبان تیزی سے ملک کے دیگر علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں

البتہ چند علاقے ایسے ہیں جہاں پر اس وقت لڑائی جاری ہے اور طالبان کی وہاں کثیر تعداد میں موجودگی ہے۔

لیکن زمینی صورتحال تیزی سے تبدیل بھی ہو رہی ہے اور ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے جس کے باعث خبروں کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔

تاہم یہ واضح ہے کہ طالبان کی پیشرفت تیزی سے جاری ہے اور اب اندازہ ہے کہ ملک کے ایک تہائی حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔

سنہ 2001 کے بعد سے کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟

افغانستان میں جاری اس 20 سالہ جنگ کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں بلکہ ان کے پڑوس میں پاکستان میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں جنگجو، عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔

اس سال کے پہلے تین مہینوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں ‘واضح اضافہ’ ہوا ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خود ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس (آئی ای ڈی) کا استعمال اور ٹارگٹڈ کلنگ ہے۔

گذشتہ سال افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 43 فیصد اموات خواتین اور بچوں کی تھیں۔

جنگ کے باعث کتنے لوگ ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے ہیں؟

برسوں سے جاری جنگ کے باعث لاکھوں کی تعداد میں لوگ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور جن میں سے بہتوں نے افغانستان کے پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہے اور کئی دیگر ممالک میں منتقل ہونے اور پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن ایک بڑی اکثریت بے گھر ہو چکی ہے اور ملک کے لاکھوں افراد غربت اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔

صرف گذشتہ برس چار لاکھ سے زیادہ لوگ افغانستان میں جاری جھڑپوں کی نتیجے میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 2012 سے لے کر اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور دوبارہ اپنے گھر نہیں جا سکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں بے گھر ہونے والوں میں تیسری سب سے بڑی تعداد افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث افغانستان کے قومی وسائل پر مزید بوجھ بڑھا ہے اور ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگائے جانے کے بعد لوگوں کے لیے ذریعہ معاش تک رسائی بھی مشکل ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی امور کے ادارے کے مطابق ملک بھر کی 30 فیصد آبادی اس وقت غذائی قلت کے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔

کیا افغانستان میں لڑکیاں سکول جا سکتی ہیں؟

طالبان کے دور حکمرانی میں خواتین کے حقوق مکمل طور پر سلب کر لیے گئے تھے اور 1999 میں پورے ملک میں ایک بھی بچی سیکنڈری سکول میں داخل نہیں تھی جبکہ پرائمری سکولوں میں صرف نو ہزار بچیوں کی رجسٹریشن تھی۔

طالبان کی حکومت جانے کے بعد اگلے دو برسوں میں بڑی تعداد میں بچیوں نے سکولوں میں داخلہ لیا اور 2003 میں یہ تعداد 24 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس وقت افغانستان میں قریباً 35 لاکھ طالبات سکول میں ہیں جبکہ ملک میں سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں طلبا میں سے ایک تہائی تعداد طالبات کی ہے۔

تاہم یونیسف کے مطابق ابھی بھی ملک میں 37 لاکھ کے قریب بچے سکول نہیں جاتے اور اس میں سے 60 فیصد بچیاں ہیں، اور اس کی وجہ ملک میں جاری لڑائی اور خواتین اساتذہ کی اور وسائل کی کمی ہے۔

طالبان کا اس بارے میں موقف ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جن جن علاقوں میں طالبان کا قبضہ ہے وہاں بہت کم تعداد میں بچیوں کو سکول جانے کی اجازت ملتی ہے۔

خواتین کے لیے مواقع

طالبان کی حکومت جانے کے بعد اگلی دو دہائیوں میں خواتین کا عوامی امور میں عمل دخل بڑھ گیا ہے اور اب وہ سیاسی عہدوں پر بھی فائز ہیں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2019 تک ملک میں ایک ہزار خواتین کے اپنے کاروبار تھے۔

افغانستان کا آئین کہتا ہے کہ پارلیمان کے ایوان زیریں میں کم از کم 27 فیصد خواتین ممبران ہونی چاہیے جس کے تحت پارلیمان کی 249 میں سے 69 فیصد نشستیں خواتین کی ہیں۔

افغانستان میں معمولات زندگی میں اور کیسے تبدیلی آئی ہے؟

ملک بھر میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آبادی کا 22 فیصد یعنی 86 لاکھ سے زیادہ افراد کے پاس جنوری 2021 تک انٹرنیٹ کی رسائی ممکن تھی اور لاکھوں کی تعداد میں افغان سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

موبائل فون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 68 فیصد آبادی کے پاس اپنے موبائل ہیں لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سروس کا معیار بہت اچھا نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان بھی 20 سالہ جنگ سے تھک چکے ہیں، روس

افغانستان میں ابھی بھی اکثریت بینک اکاؤنٹس کے بغیر ہے اور اعداد و شمار کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ بالغ افراد کے پاس بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں۔

ورلڈ بینک کے مطابق اس کی وجہ ملکی حالات کے علاوہ سماجی اور مذہبی عقائد ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں کا مالیاتی اداروں پر اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی مالیاتی امور کے بارے میں آگاہی۔

لیکن ورلڈ بینک کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اس حوالے سے شروع کیے جانے والے نئے منصوبوں کے تحت اگلے پانچ برسوں میں افغانستان میں بینک اکاؤنٹس رکھنے والے بالغ افراد کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔

دارالحکومت کابل میں اب بڑی تعداد میں اونچی عمارتیں بن گئی ہیں جو شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

دیہی علاقوں کی معیشت میں پوست کا کردار

افغانستان دنیا میں پوست کی پیداوار کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور برطانوی حکام کے مطابق برطانیہ میں پہنچنے والی 95 فیصد ہیروئن افغانستان سے آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پوست کی کاشت گذشتہ 20 سالوں میں تیزی سے بڑھی ہے اور ملک کے 34 میں سے صرف 12 صوبے ایسے ہیں جہاں پوست کی کاشت نہیں ہوتی حالانکہ کسانوں کو بار بار ترغیب دی گئی ہے کہ وہ پوست کی فصل چھوڑ کر دیگر فصلوں پر توجہ دیں۔

پوست

طالبان نے اپنے دور حکومت کے آخری سال میں ملک بھر میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی لیکن وہ بہت کم وقت تک قائم رہی کیونکہ پوست کی فصل ان کے لیے اور اس سے جڑے ہوئے افراد کے لیے لاکھوں کروڑں ڈالر کی آمدنی لاتی تھی۔

قیاس ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور نوکری کے دیگر ذرائع نہ ہونے کے باعث پوست کی کاشت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔


متعلقہ خبریں