ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کے مطالبہ میں شدت


واشنگٹن: امریکہ کے پانچ صدور بشمول باراک اوبامہ، جمی کارٹر، تھیوڈور روزویلٹ اور وڈروولسن امن کے نوبل انعام جیت چکے ہیں اور اب موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے اس اہم ترین انعام سے صدرٹرمپ کو بھی نوازا جائے۔

یورپ میں جہاں صدر ٹرمپ بہت زیادہ غیرمقبول ہیں، اس مطالبے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا مطالبہ کرنے والے رک نہیں رہے بلکہ مطالبہ کنندگان کی فہرست میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ریاست انڈیانا سے ایوان نمائندگان کے رکن لیوک میسر کا کہنا ہے کہ میں اس مطالبے کو کئی مہینوں سے پیش کر رہا ہوں۔ صدر ٹرمپ کو کامیاب ’ٹوئٹرسفارتکاری‘ پر نوبل انعام ملنا چاہیے۔

میسران 18 ریپبلکن قانون سازوں میں سے ہیں جنہوں نے ناروے کی نوبل کمیٹی کے چیئرمین بیرٹ رس اینڈرسن کو گزشتہ ہفتے خط لکھا تھا۔ کمیٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ کو کوریا کی جنگ ختم کرنے، جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے پیش کی گئی خدمات کے اعتراف میں 2019 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا جائے۔

روایتی طور پر نارڈک خطے کے ممالک کے قانون ساز نوبل انعام کے لیے ممکنہ نامزدگیوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ڈنمارک کے دارالحکومت میں لوگوں کو ٹرمپ کے امن کے نوبل انعام جیتنے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے جب کوپن ہیگن کے ایک 46 سالہ اکاؤنٹنٹ لیس لارمین سے ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے ایک بلند قہقہہ لگانے سے پہلے کہا ’ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام! یقیناً آپ مذاق کر رہے ہوں گے۔‘

ایک اور 52 سالہ شخص ہیس جیکسن نے کہا کہ ٹرمپ کے نوبل انعام جیتنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ نوبل کے لیے نامزدگی کا مطلب انعام جیتنا نہیں، یہ بہت احمقانہ بات ہے کہ کوئی ایسی ویسی امید پال لی جائے کہ ٹرمپ نوبل انعام حاصل بھی کر سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے سنگاپور میں 12 جون کو طے شدہ ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔

شمالی کوریا کے ساتھ حالیہ سفارت کاری کی پہلی کامیابی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز اس وقت حاصل کی جب کوریا میں ایک سال سے قید تین امریکی رہا ہو کر وطن واپس پہنچے۔ یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ کی سفارت کاری شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر منتج ہو گی۔

رائے عامہ کے حالیہ جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی بہت سی پالیسیاں پوری دنیا میں بہت زیادہ غیرمقبول ہیں۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق لوگوں کا ٹرمپ پر عالمی معاملات میں درست قدم اٹھانے کے حوالے سے اعتماد بہت ہی کم ہو گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں نوبل انعام ملنا چاہیے، ان کا ماننا ہے کہ موجودہ امریکی صدر نے سابق صدر باراک اوبامہ کے مقابلے میں امن کے لیے بہت کام کیا ہے۔

برطانوی سیاستدان نائیجل فاراگ جو کہ ٹرمپ کو انعام دینے کے حامی ہیں کا کہنا ہے کہ اوباما کو امن کا نوبل انعام بہت ہی معمولی کاوشوں پر دیا گیا تھا۔ اوبامہ کو انعام اس بات پر ملا کہ وہ کیا کریں گے لیکن ٹرمپ نے جس طرح کوریا کے ساتھ بات چیت کو جاری رکھا اس پر انہیں ضرور انعام ملنا چاہیے۔

فاراگ برطانیہ کی انڈیپنڈنٹ پارٹی کے سابق لیڈر ہیں اور بطور رکن یورپی پارلیمان نوبل انعام کے لیے لوگوں کو نامزد کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ کی نامزدگی کے لیے پیٹیشن دائر کریں گے۔

نوبل امن انعام کے لیے نامزدگیاں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، امن اور عالمی معاملات پر تحقیق کے لیے قائم اداروں کے ڈائریکٹرز، سابق انعام یافتہ گان اور اسمبلیوں کے اراکین یا حکومتی ارکان کر سکتے ہیں۔ کسی بھی سال کے امن انعام کی نامزدگی کے لیے امیدواروں کے نام یکم فروری سے پہلے ناروے کی نوبل انعام کمیٹی کے پاس پہنچ جانے چاہئیں۔

رواں برس جنوری کو اوسلو کے پیس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے میزک اردل نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ 2018 میں امن کے نوبل انعام کے لیے بھی ٹرمپ کا نام دیا گیا تھا لیکن مذکورہ نامزدگی کسی مضبوط جواز کے بغیر تھی۔

گزشتہ برس ٹرمپ کو ایک امریکی کھلاڑی نے نامزد کیا تھا، مذکورہ کھلاڑی کو نامزدگی کا حق حاصل تھا۔ تاہم میزک اردل نے کھلاڑی کا نام بتانے سے انکار کر دیا تھا۔تاہم مارچ میں ناروے کی  نوبل کمیٹی نے انکشاف کیا تھا کہ کسی نے شناخت چوری کرکے ٹرمپ کو نامزد کیا تھا۔

اگر ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے تو یہ شمالی کوریا کے ساتھ صدر ٹرمپ کی اس کشیدگی کا ڈرامائی اختتام ہوگا، جس کا آغاز صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ کو ’چھوٹے راکٹ جیسا آدمی‘ قرار دے کر کیا تھا۔ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کی امریکہ شمالی کوریا پر آگ اور خون کی بارش کر کے اسے تباہ کر دے گا۔

صدر ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کا مطالبہ جنوبی کوریا کے صدر مون جی ان نے بھی کیا تھا۔ مبینہ طور پر مون نے اپنے سیکریٹریز سے ملاقات میں کہا تھا کہ امن کا انعام ان کے بجائے ٹرمپ کو ملنا چاہیے۔ یہ خیال جنوبی کوریا کے سابق صدر کی بیوہ نے پیش کیا تھا۔ امریکی صدر کے حامیوں نے اس خیال کو ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن صدر ٹرمپ نے اپنی روایت کے بر خلاف اس خیال کو پذیرائی نہیں بخشی۔

مشی گن میں ایک حالیہ خطاب کے دوران جب ٹرمپ نے شمالی کوریا کے حوالے سے اپنی کوششوں کا ذکر کیا توپورا مجمع ’نوبل، نوبل‘ کے نعرے لگانے لگا ۔ اس کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا ’بہت اچھا، آپ کا شکریہ، نوبل، میں تو بس اپنا کام کرنا چاہتا ہوں۔‘

بدھ کو جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے آپ کو نوبل انعام کا حقدار سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ’ہر کوئی ایسا سمجھتا ہے لیکن میں ایسا نہیں کہوں گا۔ میں صرف وہ انعام چاہتا ہوں جس میں پوری دنیا کی فتح ہو۔‘

صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی نوبل امن انعام کا ذکر نہیں کیا۔ نیشنل ریپبلکن سینٹرل کمیٹی نے بھی ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

صدر ٹرمپ کے نئے وکیل رودی گولیانی نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔ فاکس نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو نوبل انعام کے یقینی ہونے کا بتا چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں