اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں بارش کے بعد شدید سیلاب کیوں آیا؟

اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں بارش کے بعد شدید سیلاب کیوں آیا؟

گذشتہ روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں بارش کے بعد شدید سیلاب آیا، پانی گھرں میں بھی داخل ہوگیا اور گاڑیاں بھی بہہ گئیں۔

اسلام آباد کا سیکٹر ای الیون کئی نجی رہائشی سکیموں پر مشتمل ہے اور ان ہاؤسنگ سکیموں اور بلند عمارتوں نے اس سیکٹر سے گزرنے والے برساتی نالوں کو تنگ کر دیا ہے۔

سی ڈی اے کے ترجمان رانا شکیل اصغر نے حالیہ بارشوں سے ای الیون میں ہونے والی تباہی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات تجاوزات کی وجہ سے ہی پیش آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر جب برساتی نالے کے اوپر سڑک اور گھر بنے ہوں تو جب اس میں زیادہ پانی آتا ہے تو پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور پھر اس کے راستے میں جو بھی سڑک یا گھر آتا ہے اسے نقصان ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جب بارش ہوتی ہے اور پانی ایک سطح سے زیادہ بڑھتا ہے تو وہ نالوں کے اندر نہیں رہتا بلکہ باہر نکل جاتا ہے، اور سڑکوں پر آتا ہے لیکن نکاسی آب کا نظام اگر درست ہو تو یہ وہاں سے باآسانی نکل جاتا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی جانب سے سیلابی پانی کے باعث پھیلنے والے کچرے کی صفائی کا کام تو جاری ہے تاہم سی ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ سیکٹر ای الیون کے جس حصے میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی وہ ایک نجی سوسائٹی ہے جو سی ڈی اے کی حدود میں نہیں آتی لہٰذا وہاں سی ڈی اے کی عملداری نہیں لیکن اس کے باوجود سی ڈی نے وہاں جا کر کام کیا ہے۔

رانا شکیل اصغر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’اگر کوئی زمین کسی شخص کی نجی ملکیت ہے اور وہ آدمی اس پر اپنی سوسائٹی بنانا چاہتا ہے تو وہ سی ڈی اے کو اس کا نقشہ جمع کراتا ہے اور سی ڈے اے اپنے قوانین کے تحت ان نقشوں کو دیکھتا ہے، اگر وہ نقشے سی ڈی کے قوانین کے مطابق ہوں تو پھر این او سی جاری کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ای الیون کا پورا سیکٹر نجی سوسائٹیوں کا سیکٹر ہے ’نہ تو زمین سی ڈی اے کی ہے، اور نہ سی ڈی نے وہاں کوئی پلاٹ بیچا ہے۔‘

انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جس سوسائٹی میں حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے ’جب یہ بن رہی تھی تو شروع میں انھوں نے اپنا لے آؤٹ پلان سی ڈی اے کو جمع کرایا تھا جس پر سی ڈی نے اعتراض کیا تھا کیونکہ کچھ سڑکیں جو تجویز کی گئی تھیں وہ نالوں کی جگہ پر تھیں۔‘

’سی ڈی اے نے کہا تھا کہ نالوں کی جگہ آپ نے چھوڑنی ہے لیکن انھوں نے نالوں کی جگہ نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے ان کو این او سی نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں انھوں نے کوئی ہائیڈرولوجیکل سٹڈی کرائی اور کہا کہ نالے کا پانی سڑک پر نہیں جائے گا، جس کی بنا پر انھیں ایک عارضی این او سی جاری کیا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ متعلقہ سوسائٹی کا ’پلان منظور کر لیا گیا تھا لیکن مزید خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسے کینسل کر دیا گیا اور این او سی جاری نہیں کیا گیا۔‘

ای الیون میں قائم ان نجی سوسائٹیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے رانا شکیل اصغر نے بتایا کہ ’ان سوسائٹیوں نے اپنا سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنانا تھا جو انھوں نے نہیں بنایا، انھوں نے قبرستان کی زمینوں پر بھی تجاوزات قائم کی ہوئی ہیں۔

’ان سب مسائل پر ان کے لے آؤٹ پلان بھی کینسل ہیں اور انھیں نوٹس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔‘

ای الیون سی ڈی اے کی حدود میں کیوں نہیں آتا؟

سی ڈی اے کے سابق قانونی ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل کاشف علی ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ای الیون کی تاریخ کچھ ایسے ہے کہ سنہ 1968 میں ایک گولڑہ ریوینیو سٹیٹ تھی جو 654 ایکڑ پر محیط تھی جس میں سے کچھ زمین سیکٹر ای الیون میں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ پیر آف گولڑہ کے کہنے پر سابق صدر جنرل ایوب خان کے حکم پر اس زمین کو ایکویزیشن سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔

اور بعدازاں سنہ 1986 میں یہاں سوسائٹیاں تعمیر ہوئیں اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔

انھوں نے کہا کہ یہاں ’سیوریج کے مسئلے ہیں، واٹر سپلائی کے مسئلے ہیں، نالوں پر تعمرات ہو چکی ہیں۔‘

وکیل کاشف علی ملک نے خبردار کیا کہ بغیر منظوری کے جس طرح کی غیرقانونی تعمیرات ای الیون میں ہو چکی ہیں تو مستقبل میں ایسے حادثات مزید ہو سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں