العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس، مریم نواز کو منتقل کی گئی رقوم کی تفصیلات پیش


اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نیب کے گواہ واجد ضیاء نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو منتقل کی گئیں رقوم کی تفصیلات پیش کردیں۔

احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی، پاناما جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے دوسرے روز بھی اپنا بیان ریکارڈ کرایا، اس موقع پر سابق وزیراعظم نوازشریف بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

واجد ضیاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور طارق شفیع نے جے آئی ٹی میں 1980 کے شیئر سیلز معاہدے پر دستخط کو ماننے سے انکار کردیا ہے، یہ معاہدہ حسن اور حسین نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا اور مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ طارق شفیع نے شہباز شریف کی جانب سے عبداللہ آہلی کے ساتھ یہ معاہدہ کیا۔

واجد ضیاء نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف اور مریم نواز کو منتقل ہونے والی رقوم کے چارٹ کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنوایا، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق گلف اسٹیل سو فیصد قرض کی رقم سے قائم کی گئی، طارق شفیع کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں تضاد پایا گیا۔

طارق شفیع نے گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اور فہد بن جاسم کے نمائندے کو ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی کوئی دستاویزات پیش نہیں کی، واجد ضیاء کے مطابق جے آئی ٹی نے یہ اخذ کیا کہ طارق شفیع نے کبھی ایک کروڑ 20 لاکھ  درہم وصول کیے نہ فہد بن جاسم کے نمائندے کے حوالے کیے۔

گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئرز کی فروخت کا معاہدہ تین پارٹیوں کے درمیان تھا، جن میں عبداللہ آہلی، طارق شفیع اور بی سی سی آئی بینک شامل تھے، معاہدے کے مطابق شیئرز کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے طارق شفیع نے بینک کو قرض کے دو کروڑ دس لاکھ درہم ادا کیے تاہم اب بھی طارق شفیع پر مزید ایک کروڑ چار لاکھ  درہم واجب الادا تھے۔

حسن اور حسین نواز کی طرف سے پیش کیے گئے 1980 کے معاہدے کے مطابق گلف اسٹیل کے بقیہ 25 فیصد شیئرز بھی آہلی اسٹیل کو فروخت کردئیے گئے، واجد ضیاء نے بتایا کہ طارق شفیع نے شہباز شریف کی جانب سے عبد اللہ آہلی کے ساتھ  معاہدہ  کیا تاہم جب شہباز شریف اور طارق شفیع جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تو انہوں نے بیان دیا کہ یہ دستخط ان کے نہیں۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ یہ دستاویزات حسن اور حسین نواز کی جانب سے پیش کی گئیں اور وہ عدالت کے سامنے موجود نہیں ہیں اس لیے ان دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، نیب پراسیکیوٹر نے خواجہ حارث کے اعتراض کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بیان مکمل کرنے دیں، جرح میں جو مرضی سوال پوچھ لیں، عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت پیر 14 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

آٹھ مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے واجد ضیاء کو دس مئی کو طلب کیا تھا، گزشتہ روز سماعت میں واجد ضیاء کا مکمل بیان ریکارڈ نہیں ہوسکا تھا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس 

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔


متعلقہ خبریں