تباہ حال معیشت، بڑھتا کورونا، ایرانی صدر کو آتے ہی چیلنجز

تباہ حال معیشت، بڑھتا کورونا، ایرانی صدر کو آتے ہی چیلنجز

ایران کے نئے منتخب صدرابراہیم رئیسی کوعہدہ سنبھالنے کے بعد سیاسی، معاشی، سماجی اور دیگر داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے۔

ایران کے آٹھویں صدر کے طور پر حلف لینے والے ریئسی کو تباہ حال ملکی معشیت، سماجی مسائل اور ملک میں بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے کیسز جیسے چیلنچز کا سامنا ہے۔

ایرانی صدر کو بجلی  کے پرانے اور بوسیدہ انفراسٹرکچر اور غیر فعال ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کا سامنا ہے جس کے سبب ملک کو بجلی کی بدترین بندش اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ بجلی کے بحران کے ساتھ ایران کو پانی کی قلت کے مسائل  کا بھی سامنا ہے۔

ابراہیم رئیسی نے صدارت کا عہدہ ایسے وقت میں سنبھالا جب ملک  میں کورونا وائرس کی پانچویں بڑی لہر اپنے عروج پر ہے۔

رئیسی نے کہا ہے کہ وہ علاقائی پڑوسیوں کے ساتھ  تعلقات کو بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں اور ایران کی معشیت کو مضبوط بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

نئے ایرانی صدر کو عالمی طاقتوں اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ ناکام جوہری معاہدے کی بحالی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔

اس سے قبل ایران نے سابق صدر حسن روحانی کی حکومت نے پانچ عالمی طاقوں کی ثالثی میں امریکہ سے جوہری معاہدے پر دستخط کردیا تھے۔ یہ معاہدہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی انتظامیہ اور حسن روحانی کے وزیرخارجہ جواد ظریف کے درمیان سال 2015 میں ویانا میں طے پایا تھا۔

مزید پرھیں: ایران کے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی کامیاب

بعد میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ جس کے بعد ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر کام تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کی اسرائیل اور کئی عرب ممالک نے مخالفت کی تھی۔

گزشتہ روز اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر ایران پر یہ  الزام عائد کیا ہے کہ ایران عمان کے ساحل پر آئل ٹینکر پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی بھی نئے ایرانی صدر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی اور عالمی تنہائی سے ایران کو نکالنا بھی ایران کے نئے صدر کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔

حسن روحانی نے اس سے قبل دعویٰ کیا  تھا کہ تہران  میں ان کے مخالف اور سخت گیر اہلکاروں نے ویانا میں جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق ہونے والے اہم اجلاس کو ناکام بنایا تھا۔

نئے ایرانی صدر کی جانب سے انترنیٹ پر مزید قدغن لگانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ کو محدود کرنے اور اس کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایرانی پارلیمنٹ میں ایک بل بھی زیر التوا ہے، جس میں انترنیٹ کی فراہمی اور دیکھ بھال کا اختیار ملک کی فوج کو سونپنے کی تجویز شامل ہے۔

اس سے قبل ابراہیم ریئسی نے انٹرنیٹ پر محدود پیمانے پر لوگوں کو رسائی دلانے کے مؤقف کا اظہار کیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں