عام انتخابات 2018 کے لئے سیاسی جماعتوں کے نعرے


اسلام آباد: پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام انتخابات سے قبل عوام کے لیے پر کشش ’سیاسی‘ نعرے متعارف کراتی ہیں جو ’بظاہر‘ پارٹی منشورکے عکاس ہوتے لیکن حقیقت میں دعوے ہی رہتے ہیں۔

حسب روایت ملک میں ’انتخابی موسم‘ شروع ہوتے ہی عام انتخابات 2018 کے لیے تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور اور سیاسی نعرے متعارف کروا دیے ہیں۔

مسلم لیگ ن:-

2018 کے الیکشن کے لیے مسلم لیگ ن نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ متعارف کرایا ہے۔ نواز شریف اس نعرے کے ذریعے یہ ’پیغام ‘دینا چاہتے ہیں کہ حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے۔ البتہ شنید ہے کہ ان کے پُرانے ساتھی چودھری نثار اور چند دیگر رہنما بھی اس نعرے کے حامی نہیں ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے بانی کے دور میں ’روٹی کپڑا اور مکان‘ کا انتخابی نعرہ متعارف کرایا تھا۔ سابقہ وفاقی اور موجودہ صوبائی حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے سبب اس سال پارٹی یہ نعرہ استعمال کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔

پاکستان تحریک انصاف

عمران خان نے الیکشن2018  کے لیے ’تبدیلی‘ اور ’نیا پاکستان‘ کے بعد ’دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان‘ کے نعرے متعارف کرائے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف سربراہ نے گیارہ نکاتی انتخابی منشوربھی دیا ہے۔

پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو تیزی سے اپنا حصہ بنانے والی تحریک انصاف نے  پاکستان کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

تحریک انصاف کے انتخابی منصوبے میں اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ عمران خان کے گیارہ نکات پر عملدرآمد کیسے ہو گا۔۔

متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)

دینی سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد متحدہ مجلس عمل بحال کر دیا گیا ہے جو کتاب کے انتخابی نشان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر انتخابی میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے۔

ماضی کی طرح یہ اتحاد الیکشن 2018 کے لئے بھی اب تک پاکستان کی نظریاتی شناخت کے تحفظ، سیکولرازم اور لبرل ازم کے تسلط سے بچاؤ کو اپنے انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

بنیادی طور پرپاکستان کی انتخابی سیاست طاقت ور شخصیات کے گرد گھومتی ہے، لہذا انتخابی منشور کی تیاری میں پارٹی رہنماؤں سے مشاورت بھی محدود ہوتی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اکثر جماعتوں کے سربراہان نے اپنا پورا انتخابی منشور نہیں  پڑھا ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ االیکشن کے بعد انتخابی منشورکو یکسر بھلا دیا جاتا ہے۔

قبل از انتخاب اور بعد از انتخاب کا عمل بتاتا ہے کہ جیتنے والی پارٹی اپنے سیاسی منشورسے ہٹ جاتی ہے اور ہارنے والوں کو انتخابی منشور کی مزید ضرورت نہیں رہتی۔


متعلقہ خبریں