پسند کی شادی توڑنے کی کوشش آئین کی خلاف ورزی ہے، لاہورہائیکورٹ

بھارتی خاتون کا پاکستانی شہریت کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

فائل فوٹو


لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے پسند کی شادی پر ہراساں کئے جانے کے کیس میں قرار دیا ہے کہ
پسند کی شادی توڑنے کی کوشش کو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے پولیس کو درخواستگزار خاتون اور اس کے خاوند کو غیرقانونی ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

عدالت نے صائمہ بی بی کی درخواست پر پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر بھی قرار دیا ہے۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ تحفظ حاصل کرنے کی درخواستوں پر عدالتی احکامات کا غلط استعمال روکنے کیلئے عدالت کو محتاط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

پسند کی شادی کے بعد قریبی رشتہ داروں کا اس تعلق کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں عام ہے۔

ہرعاقل اور بالغ مسلمان لڑکی کے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا قانونی نکتہ عدالتوں میں طے ہو چکا ہے۔

پسند کی شادی ایک مذہبی معاہدے نکاح کے تحت پایا تکمیل کو پہنچتی اور جوڑا اپنے خاندان کا آغاز کرتا ہے، اسلامی قوانین کے تحت ہر مرد اور خاتون اپنی مرضی سے نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ والدین کی مرضی کے بغیر شادی کرنیوالی خواتین کی جانب سے تحفظ کی درخواستوں کا رجحان بڑھ چکا ہے۔

تحفظ حاصل کرنے کی درخواستوں پر عدالتی احکامات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے عدالت کو محتاط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

فیصلے کے متن میں درج ہے کہ خواتین کا پسند کی شادی پر خیالی خدشے کے پیش نظر اپنے باپ، بھائی حتی کہ ماں کیخلاف درخواستیں دائر کرنے کا رجحان پریشان کن امر ہے۔

جج نے لکھا کہ عدالتوں میں دائر کچھ کیسوں میں ثابت ہوا بھی ہے کہ شادی شدہ جوڑے کی زندگی کو حقیقی خطرات لاحق تھے۔

تحفظ حاصل کرنے کی درخواستوں پر عدالتی احکامات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے عدالت کو محتاط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں