پرندے جانوروں کے بال کیوں چراتے ہیں؟


انسانوں کی طرح پرندوں کو بھی اپنے گھونسلوں کو بہتر سے بہترین بنانے کی جستجو ہوتی ہے۔  اس کے لیے پرندے جانوروں کے صرف گرے ہوئے بال ہی نہیں بلکہ جانوروں کے مردہ جسموں سے بھی بال جمع کرتے ہیں۔

تاہم نئی تحقیق کے مطابق پرندے عام طور پر زندہ جانوروں کے جسموں سے بال اکھاڑ کر چوری بھی کر لیتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو میں شائع رپورٹ میں سماجی اور نفسیاتی رویوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی ریسرچ پیش کی گئی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں میں نئے گھونسلے بنانے کا وقت آتا ہے، تو اس دوران چند انواع کے پرندے  اپنے رویوں میں بالکل بےجھجھک ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ‘گھر‘ زیادہ سے زیادہ نرم اور آرام دہ مادوں سے بنے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: پرندے اپنی ہی خوبصورت چہچہاہٹ بھول گئے

ان پرندوں کو ایسے بالوں کی تلاش ہوتی ہے، جن کے دھاگے لچک دار ہونے کے باعث گھونسلوں کی تعمیر میں حسب خواہش اور حسب ضرورت استعمال کیے جا سکیں، اور وہ ان کے بچوں کی جسمانی حفاظت میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

امریکا کی الینوئے یونیورسٹی کے پرندوں سے متعلق حیاتیاتی علوم کے ایک ماہر نے بتایا کہ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بندر سے ملتے جلتے رَیکُون نامی ایک ممالیہ جانور کو کھانا کھاتے ہوئے ایک ایسی چڑیا تنگ کر رہی تھی، جو بار بار اس کی کھال پر چونچ مار کر اس کے بال کھینچ رہی تھی۔

جس کے بعد ان کی پوری ٹیم نے قدرتی ماحول میں مختلف پرندوں کا مشاہدہ کر کے تحقیقات کا آغاز کیا۔

اس کے علاوہ کئی پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرغیوں اور بطخوں وغیرہ کے پروں اور بھیڑ بکریوں کے نرم بالوں کو چرانا پسند کرتے ہیں۔

اس ریسرچ کے بعد سائنس دانوں نے ایک باقاعدہ اصطلاح بھی ایجاد کر لی ہے، جو ‘کلَیپٹوتریچی‘ (Kleptotrichie) کہلاتی ہے۔

یہ اصطلاح یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے، kléptein کے معنی چوری کرنا اور تریچی thrix سے نکلا ہے، جس کے معنی بال ہیں۔

 

 


متعلقہ خبریں