اسلام آباد ہائیکورٹ کا کچی آبادیوں سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کا حکم


اسلام آباد ہائی کورٹ  نے کچی آبادیوں کا سروے کر کے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی معاونین اور اٹارنی جنرل کے نامزد نمائندے پر مشتمل کمیشن جائزہ رپورٹ جمع کرائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر سسٹم صحیح چل رہا ہو تو تجاوزات نہیں ہو سکتیں، اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں نالے پر تعمیرات سے تباہی ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ اداروں نے یقینی بنانا تھا کہ 1400 اسکوائر میل کے علاقہ میں کوئی غیر قانونی تعمیر نہ ہو۔ جو نالے کنارے آباد ہیں یہ تو ان کی اپنی سیفٹی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ کل کو خدانخواستہ سیلاب آ گیا تو کون ذمہ دار ہو گا؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم: کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے کی ہدایت

چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا کہ دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کیسے ہو گی؟ تمام ادارے صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کیا اسلام آباد پبلک کے لیے ہے یا صرف ایلیٹ کے لیے؟ یہاں صرف ایلیٹ کلاس کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے سارا سسٹم کرپٹ کر دیا گیا۔ اسلا م آباد میں دو مختلف قانون ہیں، دارالحکومت میں یہ سسٹم کی ناکامی ہے۔ آئینی عدالت کا کام کمزور طبقوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا کہ قانون کی نظر میں طاقتور اور کمزور سب برابر ہیں۔ اگر آپ نے کوئی ایکشن لینا ہے تو کسی امتیازی سلوک کے بغیر لیں۔ کورٹ نے ڈیکلیئر کیا ہے کہ بڑے آدمی کی چیز کو ریگولرائز نہ کریں۔ عدالت نے کہا کہ بلا تفریق قانون کا نفاذ کریں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بتائیں کہ سی ڈی اے نے اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھائیں؟  قانون کے نفاذ میں ناکامی پر کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں اور کس کے خلاف کارروائی کریں؟  دس تسلیم شدہ کچی آبادیوں میں کتنے لوگ رہائش پذیر ہیں؟ کیا الاٹمنٹ لیٹرز د یئےہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں