ڈل جھیل کی مشہور شکارا کشتی اب مظفرآباد میں


مظفرآباد: کشمیری ثقافت کی  پہچان سرینگر کی ڈَل جھیل میں پائی جانے والی شکارا کشتی اب مظفرآباد کی فوڈ اسٹریٹ میں بھی موجود ہے۔

مظفرآباد شہرمیں موجود یہ شکارا دراصل مقبوضہ کشمیر میں موجود ڈَل جھیل کے اندر چلنے والی کشتی شکارا سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ اسے مظفرآباد کی فوڈ اسٹریٹ میں رکھا گیا ہے جہاں یہ ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

کوشر فوڈز کے نام سے مشہور شکارا نما ریستوران میں کشمیری کھانے رکھ کر فروخت کیے جاتے ہیں جن میں گوشتابے، کشمیری چائے اور کشمیری پلاؤ شامل ہیں۔ جو یہاں آکر کھانے والوں کو ناصرف کشمیری ثقافت سے روشناس کرروا رہا ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کا ایک زریعہ بھی بن رہا ہے۔

اس ریستوران کے بانی 40 سالہ معمار اور انجینئر کامران حسن کہتے ہیں کہ مجھ سے اکثر میرے پاکستانی دوست یہ سوال کرتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی ثقافت میں ایسا کیا مشترک ہے جو انہیں باہمی تعلق میں جوڑے رکھتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ میرے پاکستانی دوست ہمیشہ یہ سوال کرتے تھے کہ پاکستانی اور کشمیری کھانوں میں کیا فرق ہے؟ ہم تو پاکستان اور کشمیر میں ایک ہی جیسا کھانا کھاتے ہیں۔

کامران حسن کے مطابق ان سوالات سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں ناں ایک ایسا موبائل ریستوران تعمیر کیا جائے جو کشمیری ثقافت کا عکاس بھی ہو اور مقبوضہ و آزاد کشمیر کے باہمی رشتے کی علامت بھی۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے الیکٹرک انجینئر خواجہ جمیل کی مدد سے اس شکارا نما ریستوران ’کوشر فوڈز‘ کی بنیاد رکھی۔

کوشر فوڈز پرکشمیری لذیذ کھانوں گوشتابہ یخنی، کشمیری پلاؤ اور نمکین کشمیری چائے سے لطف اندوز ہوتے سیاحوں کے لیے کشمیری صوفی میوزک کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ہفتہ اور اتوار کو کوشر فوڈز پر ہریسہ بھی دستیاب ہوتا ہے جو کہ روایتی کشمیری کھانوں میں سب سے زیادہ لذیذ مانا جاتا ہے۔

کامران حسن کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس میں بھی شکارا ریستوران کوشر فوڈز کی ایک شاخ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ مختلف علاقوں سے حصول علم کے لیے آنے والے طلبا کو بھی کشمیری ثقافت سے روشناس کروا سکیں۔

ریاست آزاد کشمیر میں کشمیر کلچرل اکیڈمی اور ثقافت کے حوالے سے باقاعدہ ایک وزارت اور ادارہ موجود ہیں مگر ان کی جانب سے کشمیری ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے البتہ کچھ مقامی لوگ کشمیری ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔


معاونت ؛ ایڈیٹر
متعلقہ خبریں