نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف گواہ بیان سے منحرف


کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف پولیس کا گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگیا ہے۔

پولیس  نے شہزادہ جہانگیر کو نقیب اللہ قتل کیس میں واقعہ کا عینی شاہد ظاہر کیا تھا تاہم آج عدالت میں پیش کئے گئے اپنے حلف نامے میں اس نے کہا کہ 13 جنوری کو پولیس مقابلے کے وقت وہ موقع پرموجود نہیں تھا، دس فروری کو اس کی میمن گوٹھ  تھانے میں تعیناتی ہوئی، 17 فروری کو ایس پی آفس سے کال آئی، دوسرے روز وہاں پہنچنے پراسے گرفتار کرلیا گیا اور سات آٹھ  روز بعد ڈرا دھمکا  کر راؤ انوار کے خلاف جھوٹا بیان دینے  پر مجبور کیا گیا۔ شہزادہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔

عدالت نے گواہ  کا حلف نامہ قبول کرلیا۔

مقتول نقیب اللہ کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ملزمان گواہوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ  اپنے بیانات واپس لے رہے ہیں، ہم عدالت میں اس کے خلاف اپنے اعتراضات داخل کریں گے اگردہشت گردی کی بات عدالت میں نہ سنی گئی تو سپریم کورٹ تک جائیں گے، ہمیں شک  ہے کہ گواہ سے بیان زبردستی لیا  گیا ہے اور اس کے محرکات کچھ  اور ہو سکتے ہیں۔

آج راؤ انوارکو سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی عدالت لایا  گیا، دیگر ملزمان بھی عدالت میں موجود تھے، راؤ انوار سمیت گیارہ ملزمان کے وکلا کو مقدمہ کی نقول فراہم کردی گئی ہیں۔

وکلا کی جانب سے گواہ کے بیان حلفی اور راؤ انوار کی ضمانت کی درخواستوں کی کاپیاں فراہم  کرنےکی استدعا کی گئی جسے عدالت نےمنظورکرتے ہوئے حکم دیا کہ تمام نقول نقیب کے وکلا کو فراہم کی جائیں۔

گیارہ مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے عدالت نے ایک بار پھر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

کیس کی سماعت انیس مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی نعش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی، مبینہ پولیس مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب اللہ  کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں پولیس مقابلے کے خلاف سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور پولیس کے اقدام  کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

سوشل میڈیا میں اٹھنے والی آوازوں کے نتیجے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا، انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نتیجہ قرار دیا۔

آئی جی سندھ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ کے دوستوں قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی کے سامنے نقیب اللہ کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بھی راؤ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد راؤانوار اپنی پولیس ٹیم کے ہمراہ  روپوش ہو گئے،  سابق ایس ایس پی سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے، سندھ پولیس بھی عدالتی احکامات کے باوجود ان کی گرفتاری میں یکسر ناکام ثابت ہوئی۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو راؤ انوار خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہیں عدالتی حکم  پر عدالت  کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچا یا گیا۔

سپریم کورٹ نے راؤ انوار کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کراچی پولیس کے افسر آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی جے آئی ٹی قائم کی تھی۔


متعلقہ خبریں