افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا غیر اسلامی ہو گا،عمران خان


وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا غیر اسلامی ہو گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان  نے کہا کہ ان کے  خیال میں  طالبان حکومت خواتین کو سکولوں میں جانے کی اجازت دے گی۔ یہ خیال ہی اسلامی نہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

عمران خان  نے کہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے بارے پڑوسی ممالک سے مشاورت کے بعد اجتماعی فیصلہ کریں گے۔

پاکستان دیگر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ مل کر اس بات پر فیصلہ کرے گا کہ طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’تمام پڑوسی اکٹھے ہوں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔‘’انھیں تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ ایک اجتماعی فیصلہ ہو گا۔‘

یہ فیصلہ طالبان کے انسانی حقوق کے عزم پر مبنی ہوگا ،افغان سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا اورطالبان ایک جامع حکومت تشکیل دیں گے،افغانستان میں جامع حکومت نہ بنی تو خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔

ہمیں اس خونریزی کا خدشہ تھا جو سوویت کے بعد افغانستان میں دیکھی گئی تھی،ہم نے نہیں سوچا تھا کہ طالبان فوری طور پر کنٹرول سنبھال لیں گے،ہمیں خدشہ تھا کہ طالبان پشتون آبادی والے علاقوں پر قبضہ کر لیں گےاور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آگے کیا ہوگا،ہمیں بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافی کے اس سوال پر کہ کیا طالبان کو قبول کرتے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ نہیں، وہ صرف ان کی باتوں کی تصدیق کر رہے ہیں ،سچ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ افغانستان اب کہاں جائے گا۔

افغانوں کے لیے 5 سال بعد امن اور استحکام دیکھنا چاہتے ہیں، افغانستان میں ابھی جامع حکومت نہیں بن سکی،سب کوساتھ لےکرچلنےسےافغانستان میں پائیدارامن ممکن ہوگا۔

20سال کی جنگ کے بعد طالبان سے اتنی جلدی توقعات رکھنا درست نہیں، توقع ہے کہ افغانستان میں طالبان خواتین کو تعلیم کی اجازت دے دیں گے، طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو مرحلہ وار قومی دھارے میں شامل کریں گے۔

افغانستان میں 40سال سے جاری جنگ کا خاتمہ اچھی خبر ہے،اس وقت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان کس سمت جائے گا۔


متعلقہ خبریں