قاتل کو پھانسی دی جائیگی، ڈاکوؤں کے ہاتھ پیر کاٹے جائیں گے: ملا نورالدین ترابی

قاتل کو پھانسی دی جائیگی، ڈاکوؤں کے ہاتھ پیر کاٹے جائیں گے: ملا نورالدین ترابی

کابل: طالبان کے سینئر رہنما ملا نورالدین ترابی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جن سزاؤں کو مناسب سمجھیں گے ان پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

افغانستان کا معاشی بحران خطرناک ثابت ہو گا، وزیر خارجہ

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسٹیڈیم یا کھلے میدان میں سزاؤں کے نفاذ پر ہر کسی نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ہم نے تو کبھی ان کے قوانین اوران کے ہاں نافذ العمل سزاؤں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی دوسرا ہمیں نہیں بتائے کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہئیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کی پیروی کریں گے اور قرآن پرمبنی قوانین بنائیں گے۔

ملا نورالدین ترابی طالبان کے سابقہ دورمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی وزارت کے سربراہ تھے۔ انھوں نے کہا کہ قتل کے مجرم قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے گی تاہم انہوں ںے واضح کیا کہ مقتول کے متاثرہ خاندان کے پاس یہ اختیار باقی ہے کہ وہ قصاص کے بجائے قاتل کی جان بخشی کے بدلے میں خون بہا کی رقم (دیت) قبول کرسکتے ہیں۔

ملا نورالدین ترابی نے کہا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو قصور وار ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جائے گی اور شاہراہوں پر مسلح ڈکیتیوں کے مجرموں کا الٹا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹا جائے گا۔

افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا غیر اسلامی ہو گا،عمران خان

انہوں نے کہا کہ ملک میں امن وامان کے قیام اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے کسی مجرم کا ہاتھ کاٹنا ضروری ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ طالبان کے سزاؤں پر عمل درآمد سے پہلے جج حضرات مقدمات کا سماعت کے بعد فیصلہ کریں گے اور پھران کا نفاذ کیا جائے گا۔

ملا نورالدین ترابی نے کہا کہ ہم ماضی کے مقابلے میں اب بدل چکے ہیں۔ انہوں ںے واضح کیا کہ اب طالبان ٹیلی ویژن و موبائل فون کے استعمال اور تصاویرو ویڈیو بنانے کی اجازت دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کے متعلق سنجیدہ ہیں۔

چین کا افغانستان سے معاشی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سینئر طالبان رہنما ملا نورالدین ترابی نے کہا کہ طالبان میڈیا کو اپنا پیغام پھیلانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس طرح ہم سینکڑوں افراد کے بجائے لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں