سپریم کورٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا
سپریم کورٹ نے درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے پاس سیاسی نظام بدلنے کا کوئی اختیار نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا دراخواست گزار معاملے میں متعلقہ بھی ہے کہ نہیں ؟کیا یہ درخواستیں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں ؟
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، سپریم کورٹ
انہوں نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتیں موجود ہیں، ان کی موجودگی میں آپ کیوں عدالت میں آئے
درخواست گزار نے جواب دیا کہ سیاستدان اگر ملک کے مفاد اور فلاح کا نہیں سوچتے تو کیا میں بھی خاموش ہو جاؤں؟
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کے لیے معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ کیا یہ معاملہ ابھی تک وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں؟ کیا صدارتی نظام رائج کرنے کیلئے صرف فرد واحد کی خواہش ہے؟ آئین بن رہا تھا اور درخواست گزار اس وقت رکن پارلیمنٹ تھے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اس وقت درخواست گزار نے پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی۔ آپ خود کو کیسے آئین بنانے والوں میں شمار کر رہے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں:ججز کی تعیناتی، تبادلوں میں حکومتی مداخلت کیخلاف درخواست قابل سماعت قرار
آپ کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جو عدالت سے متعلقہ نہیں ،عدالت کو غیر متعلقہ معاملات میں مت اُلجھائیں۔
سپریم کورٹ نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس کو خارج کر دیا۔