کورونا: ہر 3میں سے ایک مریض کو لانگ کوویڈ کے سامنے کا انکشاف


کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو لانگ کوویڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

ابتدائی بیماری سے سنبھل جانے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

لانگ کوویڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سگریٹ نوش افراد میں کورونا سے اسپتال داخل ہونے کا خطرہ 80 فیصد زائد

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) اور آکسفورڈ ہیلتھ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی) کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کے لیے امریکا میں کووڈ کو شکست دینے والے 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 37 فیصد مریضوں کو بیماری کی تشخیص کے 3 سے 6 ماہ بعد  لانگ کوویڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا تھا۔

ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر کے کوویڈ کے مریضوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی مختلف علامات کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کوویڈ کی کم از کم ایک علامت موجود تھی۔

تحقیق کے مطابق بیماری کی شدت، عمر اور جنس لانگ کوویڈ کے امکانات پر اثرانداز ہونے والے عناصر ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کوویڈ کی علامات کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جو بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہے ہوں اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح معمولی سی زیادہ ہوتی ہے۔

لوگوں کو لانگ کوویڈ کی کن علامات کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا انحصار بھی مختلف عناصر ہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر معمر افراد اور مردوں کو سانس کی مشکلات اور دماغی مسائل کی علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، جبکہ جوان افراد اور خواتین کی جانب سے سردرد، معدے کے مسائل، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا: یورپ اور امریکہ میں متوقع عمروں میں کمی

تحقیق کے مطابق جن افراد کو کوویڈ کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑتا ہے ان میں دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند اور تھکاوٹ کا امکان دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح جن افراد کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، ان میں سردرد کی شکایت زیادہ عام ہوتی ہے۔

محققین نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مریضوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں