دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک کا 17 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے


اقوام متحدہ کےخوراک اور زراعت سے متعلق ادارے، ایف اے او نےخوراک کے نقصان اور ضیاع کو بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ  قرار دیتے ہوئے خوراک کے ضیاع کو  روکنے کے لئے اقدامات کی اپیل کی ہے

ادارے کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کےتمام  ممالک لگ بھگ آٹھ ارب لوگوں کے لئےکافی خوراک پیدا کر رہے ہیں۔  لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کا شکار ہیں اور دو ارب انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی کے پیٹ میں جانے کی بجائے آخر کار پرچون مارکیٹ میں پڑے پڑےگل سڑ جاتی ہے یا صارفین کے کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔

خوراک اور غذائیت کے امور سے متعلق ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لئے اقدام نہ کئے گئے تو اقوام متحدہ2030 تک بھوک کے خاتمے سے متعلق دیرپا ترقی کےاپنے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔

انہوں  نے مزید کہا ہے کہ غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہر تین میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔

ابورٹو کا کہنا ہے کہ صحت بخش خوراک کی زیادہ قیمت ہونے کے سبب دنیا کے ہر براعظم، علاقے اور ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران یہ صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ صحت بخش خوراک کے بغیر ہم کبھی بھی بھوک اور غذائیت میں کمی کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتے۔

خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 کے دوران دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا 14 فی صد حصہ کھیتوں کھلیانوں سے لے کر اسے فروخت کے مراکز تک پہنچانے کے عمل کے دوران ضائع ہو گیا تھا۔ جب کہ اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق دستیاب خوراک کا اندازاً 17 فی صد حصہ ضائع ہو گیا۔


متعلقہ خبریں