تھر میں ماوں اور بچوں کو مرنے دیا گیا،آپ ذمہ دار ہیں، چیف جسٹس برہم


 چیف جسٹس گلزار احمد نے تھر کے اسپتالوں کی حالت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے ماوں اور بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔یہ سب آپ کے کھاتے میں لکھا جارہا ہے آپ بری الذمہ نہیں۔

سپریم کورٹ رجسٹری میں تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکتوں کے کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت نے سیکریٹری صحت کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے تھر پارکر میں اسپتالوں کی صورتحال پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے مکالمے میں کہا، آپ نے ماوں اور بچوں کو مرنے دیا گیا ۔یہ سب آپ کے کھاتے میں لکھا جارہا ہے آپ بری الذمہ نہیں ہیں ۔ ایک ہلاکت کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ سب سرکاری افسران جائیں تھرپارکر کے سرکاری اسپتال میں علاج کرائیں۔ ہم آرڈر کردیتے ہیں کسی بڑی آدمی کا سرکاری افسر کا نجی اسپتال میں علاج نہ ہو ۔ سیکریٹری لیول کے جتنے افسران ہیں سب علاج کیلئے مٹھی سول اسپتال جائیں ۔ یہاں سے چار پانچ گھنٹے کا راستہ ہے جس کی قسمت میں ہوگا بچ جائے گا۔

چیف جسٹس نے برہمی  کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس آئی یو ٹی دیکھیں جاکر کیسے کام ہوتا۔ ڈیڈیکیشن ہے ڈیڈیکیشن ، یہ ہوتا ہے کام۔آپ کے منسٹرز تو آغا خان سے علاج کراتے ہیں انہیں کیا پرواہ۔ وہاں کے کمشنرز وغیرہ بادشاہ لوگ ہیں انکو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ان کو انسانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں عوام کی خدمت کیلئے لایا گیا اپنے نام نہاد ماسٹرز کی خدمت کیلئے نہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ صرف بھرتیاں ہورہی ہیں وہاں کوئی کام کرنے والا نہیں۔ دس پندرہ ہزار صحت کا عملہ ہوگا مگر کوئی نظر نہیں آتا۔ جو وہاں بھرتی ہوتا وہاں سے ٹرانسفر کرالیتا ہے۔ وہ لوگ آپ کی اولاد نہیں آپ کے والد والدہ نہیں اسلیے آپ کو فکر ہی نہیں ۔ یہ تو مکمل لاتعلقی ہے اس علاقے سے۔

سیکریٹری صاحب آپ کو وہاں جاکر رہنا پڑے گا۔ آپ سے پہلے والوں نے بھی کچھ نہیں آپ کے بعد والے بھی  کچھ نہیں کریں گے۔ آپ نے کام نہیں کرنا تو کسی اور آنے دیں۔ ہمارے پاس آکر سب کہتے مگر کرتے کچھ نہیں ہیں آپ بھی انشاء اللہ انشاء اللہ کہتے ہوئے چلے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تھر کے اسپتال تو استبل بنے ہوئے ہیں گھوڑے ہوتے ہیں وہاں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے گدھے بندھے ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ، سکھر  کسی بھی شہر میں چلے جائیں سرکاری اسپتالوں کا یہی حال ہے بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ہے ۔آپ لوگ انہیں انسان نہیں سمجھتے؟

لائٹ تک نہیں ہے دوائی،ایکسرے مشین وغیرہ کی سہولیات تو خواب ہیں۔ایکسرے مشین ہے نہیں عملہ رکھا ہوا۔اتنی بڑی فوج بنائی ہوئی ہے ہیلتھ کی کہاں ہے وہ ؟؟ ہزاروں لاکھوں لیڈی ہیلتھ ورکرز رکھی ہیں، وہ کہاں ہیں ؟  لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں رہنمائی دینی چاہیے ۔پینے کا وہاں پانی نہیں ہے اربوں روپے کے آر او پلانٹس لگا دئیے سب فیل

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم نے خود سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا۔کوئی سہولت نہیں تھی ، آپریشن تھیٹر مارچری لگ رہا تھا ۔ڈاکٹرز بھی نہیں تھے۔ ایک ڈاکٹر تھا جس نے کہا رات کو بتایا گیا ہے کل آجانا۔آر او پلانٹس پر کروڑوں روپے لگادیئے  لیکن سب خراب ہیں۔

 

 

 


متعلقہ خبریں