کشن گنگا ڈیم: پاکستان کا مقدمہ لڑنے اٹارنی جنرل کی واشنگٹن آمد


واشنگٹن: پاکستان نے کشن گنگا ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے افتتاح پر عالمی بینک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں چار رکنی وفد آج واشنگٹن پہنچ کر عالمی بینک کے صدر سے ملاقات کرے گا۔

یہ بات امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری نے ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے صدر سے سندھ طاس معاہدے،کشن گنگا اور رتلے سمیت دیگر بھارتی منصوبوں کا معاملہ اٹھائیں گے ۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ  پاکستان کی جانب سے متنازع ڈیم پر بھارت کو کئی تجاویز دی گئیں مگر پڑوسی ملک نے یکطرفہ طور پر منصوبوں پر کام جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو بتایا گیا تھا کہ ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کردے۔

پاکستان نے بھارت کے کشن گنگا ڈیم منصوبے کے افتتاح پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ باہمی مذاکرات اور عالمی بینک کی ثالثی کے باوجود بھارت نے منصوبے کی تعمیر جاری رکھی اور تنازعہ حل کیے بغیر منصوبے کا افتتاح سندھ طاس معاہد ے کی خلاف ورزی ہے۔

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کی جانب سے سخت احتجاج اور اعتراض کے باوجود متنازع کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا گزشتہ روز افتتاح کیا۔

مقبوضۃ کشمیر میں بھارتی وزیراعظم کی آمد پر شدید احتجاج کیا گیا اور وادی میں ہڑتال کی سی کیفیت رہی۔ شہریوں کی بڑی تعداد نے بھارتی وزیراعظم کی آمد پر فضا میں سیاہ غبارے چھوڑ کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔

پاکستان نے بھارت کے متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت پر خاموش نہیں رہ سکتے،عالمی بینک اپنی ذمہ داری پوری کرے اور 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں اسلام آباد کے تحفظات دور کرے ۔

پاکستان کا اس ضمن میں دوٹوک مؤقف ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے نیلم کا رخ موڑا۔ اس عمل سے پاکستان کی طرف پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا اوروادی نیلم کا 41 ہزار ایکڑ رقبہ متاثر ہوگا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارتی  آبی جارحیت  سے 250 گاؤں اور 450 لاکھ لوگ متاثر ہوں گے۔ کشن گنگا پراجیکٹ کی تعمیر سے نا صرف پاکستان کے ایکو سسٹم کو خطرات لاحق ہیں بلکہ جنگلات کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ منصوبے سے پاکستان کو سالانہ 140 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔

پاکستان بہت واضح ہے کہ بھارتی جارحیت سے دریائے نیلم کا 10 فیصد پانی متاثرہوا ہےاورپاکستان کی ایک پوری وادی مکمل طور پر تباہی کے دہانےپر پہنچ چکی ہے۔

عالمی بینک سمیت دیگر متعلقہ اداروں پر پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ سالانہ 1200 ٹن مچھلی اس علاقے سے پکڑ کر فروخت کی جاتی ہے جو بھارت کی آبی جارحیت کے بعد ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے نیلم پر پاکستان کا حق ہے لیکن بھارت نے 22کلومیٹر سرنگ بنا کر دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا ہے جس سے وادی نیلم میں پانی کا بہائو کم ہو جائے گا۔

پاکستان نے مؤقف اپنایا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنا سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کی یکسر خلاف ورزی ہے۔

2013 میں انصاف کی بین الاقوامی عدالت نے پاکستان کے اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو حکم دیا تھا کہ  پاکستان کے آبی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرے۔

متنازع کشن گنگا ہائیڈرو پاور اسٹیشن پر کام کا آغاز 2009 میں ہوا تھا اور اس منصوبے سے 330 میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔


متعلقہ خبریں